Get Alerts

رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ جس میں رشوت خوری، کرپشن بڑھ جاتی ہے، اپنے اختتام کو پہنچا

رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ جس میں رشوت خوری، کرپشن بڑھ جاتی ہے، اپنے اختتام کو پہنچا
کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد جہاں تقریباً پوری دنیا کی عوام اس سے متاثر ہوئی ہے وہاں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی غریب اور مجبور عوام اس سے زیادہ متاثر ہوئی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس کی ایک وجہ تو سب کے ساتھ سانجھی ہے یعنی روزگار کا وبا کی وجہ سے چھن جانا۔ کئی گھروں میں تو فاقوں تک بھی نوبت آن پہنچی۔

اب آ جائیں دوسری وجہ کی طرف جس کا تعلق بدقسمتی سے کرپشن سے متعلق ہے جو معاشرے میں ایسے ناسور کی طرح موجود ہے کہ کرپٹ اور بااختیار افراد مجبوری کی حالت میں عوام کا احساس کرنے کی بجائے ان کا استحصال کر کے خوشی اور سکون محسوس کرتے ہیں۔

میری ایک دوست سے بات ہو رہی تھی جو کہ ضلع نارووال پنجاب کے ایک مشہور وکیل ہیں۔ ان سے میں نے جب ماہ رمضان اور وائرس کے دوران ضلعی عدالتوں کے نظام اور حالات کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل وقت میں عدالتوں کے نچلے عملے کی حد تک میں جانتا ہوں کہ کرپشن کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی ہے اوراس کی ایک مثال یہ ہے کہ عدالت کے ریڈر کے پاس جا کر وکیل کی غیر حاضری میں سائل اس کو 500 روپے دیتا ہے اور اپنی مرضی کی تاریخ کیس میں لے لیتا ہے۔ اور یہ سب کرنے کے بعد وہ وکیل کو بتاتا ہے کہ اس نے ان کے لیٹ آنے یا نہ حاضر ہونے کی صورت میں ریڈر کو رقم دے کر مطلوبہ تاریخ حاصل کی۔

کیسی عجیب بات ہے کہ رحمتوں کے مہینے میں یہ کام رکنے کی بجائے اسی رفتار سے جاری ہے۔ ایسے لوگ روزے بھی پورے رکھتے جائیں گے، نمازیں بھی ادا کریں گے مگر ساتھ ساتھ رشوت کے بازار بھی گرم رکھیں گے۔ اگر کوئی ان کو ان کی مرضی کے مطابق خوش نہیں کر سکا تو یا تو اس کو اگلی پیشی کی تاریخ کے بارے میں کوئی سہولت نہیں ملے گی یا پھر دوسرے فریق سے ساز باز کر کے اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر صورتوں میں دونوں فریقوں سے رشوت لیتے ہیں۔ اس بات کا ذکر تو موجودہ صورتحال میں آ گیا ورنہ تو ملک کے کافی شعبہ جات میں رشوت کا بازار پورا سال گرم رہتا ہے۔

موجودہ صورتحال کے تناظر میں جہاں ایماندار اور مدد کرنے والے پولیس والے اور محکمہ صحت والے موجود ہیں وہاں ان میں موجود کالی بھیڑیں ان کا نام بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔

لاک ڈاؤن کی صورتحال میں اکثر مقامات پر یہ شکایات سننے کو ملیں کہ پولیس کے ناکے پر کھڑے افراد بجائے لاک ڈاؤن کی شرائط پر عمل کرانے کے وہاں سے گزرنے والوں سے دہاڑی بنانے میں مصروف رہے۔ اسی طرح ضلع نارووال سے مجھے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ایک شخص جو کہ کسی اور صوبے سے سفر کر کے آیا تھا، اس کو پولیس والوں نے اطلاع ملنے پر حراست میں لے لیا اور محکمہ صحت سے اس کا چیک اپ کروایا۔

محکمہ صحت نے کہہ دیا کہ یہ شخص ٹھیک ہے اور فی الحال وائرس سے بچا ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود پولیس نے اس مجبور شخص سے پیسے لے کر اپنی دہاڑی بنا کر اس کی جان چھوڑی۔

کچھ ایسی اطلاعات محکمہ صحت میں موجود کالی بھیڑوں کے بارے میں بھی ہیں۔ کئی مقامات پر لوگوں کو یہ دھمکی دے کر پیسے بٹورے گئے کہ ان کے پیسے نہ دینے کی صورت میں ان کے کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت بنا دی جائے گی۔ ملک کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں سے بھی کچھ ایسی شکایات موصول ہوئیں کہ وہاں موجود محکمہ صحت کے افسران نے ہوائی اڈے کے عملے سے ساز باز کر کے کچھ آنے والے مسافروں سے یہ کہہ کر رقم بٹوری کہ اگر انہوں نے تعاون نہ کیا تو وہ ان کا ٹیسٹ مثبت قرار دے کر ان کو قرنطینیہ میں بھجوا دیں گے۔

ایسے کئی واقعات ہیں جن میں وبا کے دور اور رحمتوں کے مہینے میں رشوت لے کر دوزخ کمانے والے افراد اپنے کام میں مصروف ہیں۔ جب کہ یہ وقت تو توبہ کا ہے اور ان جیسے لوگوں کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ خدا پاک کی رحمت اور فضل سمیٹنے کی بجائے اپنے دنیاوی عارضی فائدے کے لئے دوزخ کمانے میں مصروف ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔