کیا پڑھ لکھ کر نوکری کرنا اور دولت کمانا ہی کامیابی ہے؟

ہمارے تعلیمی اداروں میں کامیابی کے بارے میں نہیں بتایا جاتا۔ ہمارے یہاں تو بس ڈگریوں کا ڈھیر لگایا جاتا ہے۔ بس ایک جملہ بولا جاتا ہے کہ نوکری کرنی ہے، افسر بننا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ بڑا انسان بننا ہے۔ ہمیں نوکری کے خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن کامیاب ہونے کے خواب نہیں دکھائے جاتے۔

کیا پڑھ لکھ کر نوکری کرنا اور دولت کمانا ہی کامیابی ہے؟

زندگی میں ہر شے کا مل جانا کامیابی نہیں ہے۔ اگر سب کچھ زندگی میں مل جائے تو پھر کس چیز کی تمنا ہو گی؟ کچھ ادھوری خواہشیں رہنے دو، زندگی جینے کا مزہ دیتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں جس کے پاس دولت ہو، بڑا گھر ہو یا پھر اس کا امیر خاندان سے تعلق رکھتا ہو وه کامیاب آدمی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبدالستار ایدھی کے پاس تو یہ سب کچھ نہیں تھا پھر وه ہزاروں لوگوں کے آئیڈیل (ہیرو) کیسے بنے؟ آج بھی کسی دولت مند آدمی سے زیادہ کامیاب ایدھی صاحب ہیں۔ کامیابی کسی ایک جگہ پہ پہچنے کا نام نہیں ہے۔ کامیابی جدوجہد کا نام ہے، کسی کو فائدہ دینے کا نام ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں کامیابی کے بارے میں نہیں بتایا جاتا۔ ہمارے یہاں تو بس ڈگریوں کا ڈھیر لگایا جاتا ہے۔ بس ایک جملہ بولا جاتا ہے کہ نوکری کرنی ہے، افسر بننا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ بڑا انسان بننا ہے۔ ہمیں نوکری کے خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن کامیاب ہونے کے خواب نہیں دکھائے جاتے۔ ڈگریاں لینے سے نہیں، باشعور ہونے سے ملک ترقی کرتا ہے۔ آج کل تعلیم کو صرف کاروبار بنایا ہوا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ آج 13 سال کا بچہ جس کو سکول میں ہونا چاہیے تھا وہ سڑکوں پر بھیگ مانگ رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ لاکھوں کی تعداد میں بچے سکول سے باہر ہیں، وہ کس کا قصور ہے؟

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ایک تو سکول کالج میں وہ پڑھایا جاتا ہے جو نوکری کے علاوہ کسی اور کام بھی نہیں آتا۔ پھر یہ ملک کیسے سپر پاور بن سکتا ہے؟ ہماری سوچ یہاں سے خراب ہوئی ہے کہ سرکاری نوکری ہر کوئی کرنا چاہتا ہے لیکن سرکاری سکول میں اپنی اولاد کو کوئی نہیں پڑھانا چاہتا۔ اس طرح کوئی بھی معاشرہ کامیابی کی طرف نہیں جائے گا۔ اگر چاہتے ہیں کہ معاشرہ کامیابی کی طرف جائے تو سب سے پہلے برابری کی بنیاد پر انصاف کرنا ہو گا۔ اس کے بعد سکول اور کالج میں پڑھنے والے بچوں کی سوچ بدلنی ہو گی۔ ہمیں بچوں کو سکھانا ہو گا کہ نوکری صرف اور صرف ضرورت ہے اور کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو نوکری کی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا۔

جس ملک نے بھی دنیا میں ترقی کی ہے اس کے پیچھے ایمانداری، انصاف اور اچھے اخلاق ہیں۔ اس کے بغیر کوئی بھی ملک آگے گیا ہے اور نا ہی جائے گا۔ جاپان کی تاریخ پڑھیں، وہ کیوں کامیاب ہیں؟ اس لئے نہیں کہ وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ وہ اس لئے کامیاب ہے کیونکہ ان کے پاس اچھے اخلاق ہیں۔ ہمارے یہاں اخلاق کو چھوڑ کر ڈگری کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اوپر سے ہماری یونیورسٹیاں بھی ڈگری کے علاوہ کچھ نہیں دے رہی ہیں لیکن مارکیٹ میں صرف ڈگری ہی نہیں بلکہ قابلیت بھی دیکھی جاتی ہے اور وہ یونیورسٹی کے پاس ہے نہیں۔ اس طرح کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

جتنے بھی لوگ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے ڈگری کو نہیں دیکھا بلکہ اپنے ہنر اور قابلیت سے کام کیا ہے اور لوگوں کو فائدے دیے ہیں۔ انہوں نے صرف اپنے بارے میں نہیں سوچا۔ اگر وہ اپنے بارے میں سوچتے تو شاید وہ آج اتنے بڑے لوگ نہیں بنتے۔ تاریخ انہیں یاد رکھتی ہے جو تاریخ سے ٹکراتے ہیں اور تاریخ میں نام ہمیشہ بہادروں کا لکھا جاتا ہے، بزدلوں کا نہیں۔