زندہ ہیں طلبہ

زندہ ہیں طلبہ
کہتے ہیں کہ جب خاموشی انتہا کو پہنچے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دھماکہ ہونے کو ہے۔ کیونکہ، بلاوجہ تو سمندر کی موجیں بھی خاموش نہیں رہتیں اور انقلابیوں کو یہ بات وراثت میں ملی ہے کہ قابض اور سامراج اگر اونچا بھی نہ سنے تو دھماکہ کرنا لازمی ہو جاتا ہے، ایک کامریڈ نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ میرے جنازے کو بھی دھوم دھام سے نکالو تاکہ پتہ چلے کی ایک انقلابی کی میت جا رہی ہے۔

طلبہ ایک ایسی قوت اور جماعت کی نام ہے جو مختلف گھرانوں، تہذیبوں، جغرافیہ اور قوموں سے نکل کر ایک ادارے میں داخل ہوتے ہیں اور نکل کر قوم، ملک اور سلطنت کے والی وارث بنتے ہیں۔ لیکن، شرط یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے چند خاندان اس قوم، ملک اور سلطنت کو یرغمال نہ بناتے ہوں۔ کیونکہ، یہ جاگیردار اپنی دولت اور طاقت کو ہر حد تک استعمال کرتے ہیں کہ حق حکمرانی ان کے ہی پاس رہے۔

اس وقت ایشیا میں چلنے والی کٸی تحریکوں میں طلبہ تحاریک صفِ اول کی تحریکیں ہیں۔ جن میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک، ہندوستان کے دارالحکومت نٸی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں کی احتجاجی تحریک بھی شامل ہے۔ جو ایک سخت گیر انتہاپسند جماعت کی حکومت کے خلاف اپنے بنیادی حق تعلیم، تعلیم دشمن پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان طلبہ کے مطالبات بس اتنے ہی ہیں کہ یکساں نظام تعلیم ملک میں راٸج ہو، ملکی بجٹ کو خطرناک اسلحہ کی خریدوفروخت اور ایک طبقے پر لگانے کی بجائے سستی اور معیاری تعلیم پر لگایا جایا مگر نہ تو یہ بات اسلحہ پسند سرمایہ دار حکومت کو پسند ہے اور ناں ہی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار اشتہاراتی میڈیا کو۔



اسی لیے اس طلبہ احتجاج کو کچلنے کیلئے ناصرف انتہاپسند سرکار طاقت کا وحشیانہ استعمال کر کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کو داغدار کر رہی ہے بلکہ اشتہاراتی میڈیا اور ان پر بیٹھے زرد صحافت کرنے والے برائے نام صحافی حضرات بھی چیخ چیخ کر اپنا گلا خشک کر رہے ہیں کہ یہ ملک دشمن اور غدار ہیں۔

اسی طرح ہانگ کانگ کے نوجوان طلبہ بھی اس وقت کی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک کا حصہ ہیں، جو اُن کی نظر میں ان کے شناخت کی جنگ ہے۔ وہ دنیا کی ابھرتی ہوئی سرمایہ دار طاقت اور نام نہاد کمیونسٹ ملک سے اپنی بقا کو درپیش مسٸلہ سمجھتے ہوئے اپنی قابض حکومت سے لڑ رہے ہیں۔ وہاں بھی اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان میں طلبہ یکجہتی مارچ بھی چل رہی ہے جو کامریڈ فیض کے نام سے منسوب میلے کی مناسبت سے جاگ اٹھی ہے، جہاں نعرہ تو لگایا جا رہا ہے کہ ”فیض تیرا مشن ادھورہ، کریں گے مل کر ہم پورا“ اور لال لال لہرانے کی بڑی بڑی باتیں بھی کی جارہی ہیں مگر خدشہ ہے کہ یہ لال لال کامریڈ فیض میلے کے ختم ہوتے ہی سیاہ رنگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

ہمیں معلوم ہے کہ شاید یہ تحریک اور نعرے اتنے زیادہ طول تک نہ جائیں۔ شاید ایسا بھی نہ ہو کہ محنت کش مچھیرے کا بچہ مفت ہائیر ایجوکیشن حاصل کرے، یہ بھی نہ ہو کہ ہر بچی اور بچہ جو سکول میں داخلہ لے اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو۔ مگر کم از کم اتنا ہو کہ دوبارہ کسی تعلیمی ادارے میں کسی مشال کا بے رحمانہ قتل نہ ہو، کسی میڈیکل کالج کی طالبہ کا خاموش قتل نہ ہو۔ یہ لال لال اتنی جلدی سیاہ نہ ہو کہ کسی یونیورسٹی میں طلبہ کو جنسی ہراساں کرنے کا کیس رفع دفع ہو جائے۔ اور اتنی جلدی بھی لال لال کا رنگ نہ اڑ جائے جب جامعہ کراچی جیسی بڑی یونیورسٹی میں بوائز ہاسٹل کی بلڈنگ موجود ہو مگر اس میں ملک کے دور دراز سے آئے ہوئے طالبعلم نہ رہتے ہوں۔

یہ مشن پورا کرنے والے سرفروش، زندہ طلبہ، ایشیا کو سرخ کرنے سے پہلے اور سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام اور تعلیم دشمنوں سے یکساں نظام تعلیم رائج کرانے سے قبل ہی محض فیض میلے کی اختتام کے ساتھ مر نہ جائیں۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔