کسی عام سی فلم سے بھی امیدیں زیادہ باندھ لی جائیں تو یہ سپر ہٹ ہو سکتی ہے۔
فلمی دنیا میں تو ایسا ممکن ہے لیکن حقیقی دنیا میں ایک اچھی شروعات کا مطلب یہ نہیں کہ سب اچھا ہے۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ خاتمہ کہاں ہو رہا ہے۔ اور اپنی مدت کے خاتمے سے قریب دو سال قبل تحریکِ انصاف حکومت ریڈ نوٹس پر ہے۔ لیکن پارٹی کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ اپنی پیٹھ تھپتھپانے اور ایک دوسرے سے تالیاں مارنے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں یہ بھول ہی گیا ہے کہ دراصل انہیں اب بھی شدید معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔
مگر بحران، بحران میں بھی فرق ہوتا ہے۔ سامنے کے بحران تو مشترکہ اجلاس میں ووٹوں کی برتری پر ہونے والے جشن میں دب گئے۔ یہ پھر سے اٹھیں گے – مہنگائی اب بھی ویسے کی ویسی ہے، گورننس کے مسائل بھی جوں کے توں ہے، اور ہاں، کیسے بھول سکتے ہیں کہ پنڈی اسلام آباد کا آپسی تناؤ بھی وہیں کا وہیں ہے۔ لیکن اب نئے بحران ایک اژدہے کہ طرح سر اٹھا رہے ہیں اور یہ آگ اگلیں گے۔
حالات پہلے ہی گرم ہیں۔ جو کچھ اس ہفتے پارلیمان میں ہوا، اس سے واضح ہے کہ پاکستانی سیاست اب مرکزی دھارے سے ہٹ کر انتہا پسند دھڑوں میں بٹ رہی ہے۔ کوئی درمیانی رستہ موجود نہیں؛ سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں؛ اور مستقبل قریب میں ان مسائل کے حل کے لئے منطقی اقدامات لیے جانے کی کوئی امید بھی نہیں۔ حکمران جماعت نے اپنی پسند سے ہی افراتفری میں یہ قانون پاس کیا۔ اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔
تو اس کا مطلب کیا ہوگا؟
اس کے بہت سے مطلب ہو سکتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے ووٹنگ میں محض یہ مماثلت نہیں ہے کہ یہ زبردستی پاس کیے گئے بلکہ یہ بھی ہے کہ حکمران جماعت نے ان کے زبردستی پاس ہونے پر خوب جشن بھی منایا۔ تفصیل بہت تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ زبردستی پاس کروانے سے زیادہ اہم اسے پاس کروانے کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے زیادہ اہم یہ اندرونی مباحثہ ہے کہ یہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ اور اس مباحثے سے زیادہ وہ سیاست اہم ہے جس کی بنا پر یہ فیصلہ لیا گیا کہ یہ زبردستی پاس کروایا جائے گا جس سے اب افراتفری پھیلے گی۔
اور یہ سیاست کیا کہتی ہے؟
جس بحران کا ہمیں سامنا ہے اس کے خدوخال واضح کرنے میں یہاں سے چیزیں زیادہ دلچسپ ہو جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں نفرت کی سیاسی ہماری مٹی میں رچ بس گئی ہے۔ عام حالات میں، معمول کے نظام میں جسے روایتی ادارے چلاتے ہوں، نفرت کی سیاست انتخابات جیتنے کے لئے پروان چڑھائی جاتی ہے۔ ان انتخابات کے بعد یہ بتدریج پردے کے پیچھے چلی جاتی ہے، اور اس کی جگہ منطقی اور معمول کے مباحث لے لیتے ہیں اور ان میں ظاہر ہے کہ اختلاف اور مسابقت کا مصالحہ بھی شامل ہوتا ہے۔ لیکن نفرت نہیں۔ اور مسلسل بڑھتی ہوئی، آگ میں جلتی بے رحم نفرت تو بالکل نہیں جو مخالفین کو دشمن اور دشمنوں کو غداروں میں بدل دے۔ تحریکِ انصاف یہ دکھاوا بھی نہیں کرتی کہ اس کی سیاست جیتنے سے زیادہ مخالف کو کچلنے میں یقین رکھتی ہے۔ نیکی اور بدی کی جنگ میں پیچیدہ پہلوؤں پر توجہ کون دے؟
لہٰذا یہ سب اس منطق کے حساب سے بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے۔ ہیرو ولن کے ساتھ بات چیت کیوں کرے؟ کیونکہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو نیکی اور اعلیٰ اقدار تو ولن کے پاس ہوتے نہیں جن کے بدلے ہیرو اسے اپنی نیکی اور اپنے اعلیٰ اقدار دے سکے۔ نہیں جی، وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ وہ مرنا پسند کریں گے – پردۂ سیمیں کی حد تک ہی سہی – مگر اپنے بے اوقاتے، قابلِ نفرت مخالفین کی خواہشات کو سننا پسند نہیں کریں گے۔ غیرت مند لوگ ایسے ہی کرتے ہیں۔ اور PTI غیرت مندوں کی ہی تو جماعت ہے۔
اسی لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک غیرت مند شے ہے۔ اس لئے نہیں کہ یہ قابلِ احترام ہے یا نہیں ہے بلکہ اس لئے کہ غیرت مند لوگوں نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ یہ ہے۔ اور جب فیصلہ سنا دیا جائے تو پھر کوئی بحث، کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی اور سودے بازی تو بالکل ممکن نہیں۔ جب سیاست کو صرف سیاہ اور سفید میں دیکھا جائے؛ جب سیاسی مخالفت کو غیرت مند اور بے غیرت کے رنگوں میں بانٹ دیا جائے؛ اور جب قوانین محض صحیح اور بالکل غلط کے تناظر میں بنائے جائیں، تو وہ ہونا قدرتی ہے جو مشترکہ اجلاس میں ہوا۔
لیکن کیا یہ واقعی قدرتی ہے؟
یہ دکھاوے کا کلچر اس غیر قدرتی پن کی تلخ حقیقت پر پردے ڈالے ہوئے ہے جس کا اس وقت پاکستانی سیاست کو سامنا ہے۔ ہم سب دکھاوا کرتے ہیں، لیکن محض اس وقت تک جب تک کہ ہم بھول نہ جائیں کہ دراصل ہم دکھاوا کر رہے ہیں۔ بے داغ احتساب؟ PTI ہر وقت یہی دکھاوا کرتی ہے، بار بار کرتی ہے، اور ناقابلِ احتساب لوگ اپنی اپنی جگہوں پر براجمان رہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ دکھاوا اس خود راستی کی ضرورت ہے۔ اس لئے ووٹر بھی دکھاوا کرتے ہیں۔ اور بھولیے گا مت، ادارے بھی دکھاوا کرتے ہیں۔ بادشاہ کے پاس اتنے سارے کپڑے ہیں کہ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ ان کا کرنا کیا ہے۔
اسی لئے PTI دکھاوا کرتی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اس ملک کے دکھوں کی دوا ہے۔ PTI دکھاوا کرتی ہے گویا ڈسکہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔ وہ دکھاوا کرتی ہے گویا درجنوں الیکشن اہلکار اس کی اپنی حکومت کے حکم پر اس کے افسران نے اغوا نہیں کیے تھے، جس کے باعث یہ پورا الیکشن کالعدم قرار دینا پڑا۔ PTI دکھاوا کرتی ہے گویا الیکشن کمیشن نے کبھی یہ رپورٹ جاری ہی نہیں کی کہ ڈسکہ میں دھاندلی ہوئی تھی اور پنجاب حکومت اس میں ملوث تھی۔ کوئی ڈسکہ کا معاملہ نہیں اٹھائے گا، کوئی ڈسکہ پر بات نہیں کرے گا، کوئی ڈسکہ میں جو کچھ ہوا، اس کا حل نہیں کرے گا۔ لہٰذا دکھاوا یہ کیا جا رہا ہے کہ ڈسکہ میں جو کچھ ہوا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اس کو دوبارہ ہونے سے روکے گی۔
اس دکھاوے نے وہ قانون سازی کروائی ہے جس کے ذریعے ایک نظام بغیر جانچے پرکھے مسلط کیا جائے گا، جس سے مزید کئی ڈسکہ جنم لیں گے، جس سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہوگا جس کا نتیجہ افراتفری کی صورت میں نکلے گا۔ لیکن جس دنیا میں رہنے کا ہم دکھاوا کرتے ہیں، اور خود راستی کی سیاست میں جس مقام پر ہم ہیں، جو ہم کہہ رہے ہیں اور جو ہم سمجھ رہے ہیں، اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ تعداد ہے تو قانون سازی ہوگی۔ بات ختم۔
لیکن یہ جھوٹ ہے۔ وہ سب کچھ جو ہم خود کو خوش کرنے کے لئے خود کو بتا رہے ہیں۔ یہاں کوئی مساوی احتساب نہیں ہو رہا۔ اس لڑائی میں نہ کوئی ولن ہے اور نہ کوئی ہیرو۔ اور یہاں نیکی اور بدی کے بیچ کوئی جنگ نہیں جاری۔ ہم اپنی ہی دھن میں افراتفری کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ نظام کو اپنی مرضی کے مطابق مروڑنے کی خواہش اسے توڑ سکتی ہے۔
جی ہاں، جائیے اور یہ ریڈ نوٹس دیوار پر چسپاں کر دیجیے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔