پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار

پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار
سندھ ہائیکورٹ نے  پروین رحمان قتل کیس میں ملوث پانچوں مجرموں کو سنائی گئی سزاؤں کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے عمر قید کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور عدم شواہد کی بنا پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل سندھ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان عبدالرحیم سواتی، احمد خان، امجد حسین خان، عمران سواتی اور ایاز سواتی کو سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے دیں۔

اپیلوں کی منظوری کے بعد عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کیس میں ایک نہیں کئی شکوک وشبہات پائے گئے ہیں۔ ملزمان میں سے کسی پر بھی دراصل قتل کرنے کا الزام عائد نہیں کیا گیا جبکہ ان پر قتل کی منصوبہ بندی، قتل اکسانے اور عملاً قتل کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔ ملزمان دوسرے کیسزمیں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔

سندھ ہائیکورٹ نے ملزمان کی اپیلوں کا 38 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا ہےکہ اس کیس کا ایک اہم پہلو مقتولہ کا 2011 میں ایک صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہے۔ پروین رحمان کا وہ انٹرویو آیا قابل قبولیت والا ہے یا نہیں۔ وہ انٹرویو 2011 میں لیا گیا تھا جو ان کے قتل کے بعد ان ائیر کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ ملزمان کے وکلا کا مؤقف ہے قانونی طور پر اس انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ملزمان کے وکلا کے مطابق مقتولہ کے انٹرویو پر جرح کا موقع نہیں ملا ہے۔ ملزمان کے وکلا کا کہنا ہے کہ مقتولہ نے اپنا بیان کسی عدالت کے سامنے ریکارڈ نہیں کرایا تھا۔ عدالت ملزمان کے وکلا کا موقف تسلیم کرتی ہے کہ انٹرویو قابل قبولیت والا نہیں ہے۔

عدالت کے تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے مقتولہ کا انٹرویو کراچی کی امن و امان کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر دیا گیا ہو، کیس کی جے آئی ٹی کے رکن بابر بخت نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ مقتولہ نے اپنے انٹرویو میں سیاسی جماعتوں پر بھی عمومی نوعیت کے الزام لگائے۔ جے آئی ٹی رکن نے کہا کہ جو ملزمان کیس کا سامنا کررہے ہیں ان میں سی کسی پر مخصوص الزام نہیں جب کہ پراسکیوشن نے یہ بھی ثابت نہیں کیا ملزم رحیم سواتی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے، ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔

فیصلے کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول پولیس مقابلے میں مارے جانے ملزم قاری بلال کے پسٹل سے ملتے ہیں۔ پروین رحمان کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا اس کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے لیکن ملزمان کی گرفتاری کے وقت سے کوئی ایسا کوئی ہھتیار بھی برآمد نہیں کیا گیا ہے، ملزمان کا قاری بلال سے کوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ پراسکیوشن نے اس حوالے سے مزید کوئی تحقیقات نہیں کی لہذا اس ثبوت کی کوئی حثیت نہیں ہے۔

واضح رہے کہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سربراہ  پروین رحمان کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں فائرنگ کرکے اس وقت قتل کردیا گیا تھا جب وہ دفتر سے اپنے گھر کی جانب جارہی تھیں۔

پروین رحمان کے ڈرائیور نے فوری طور پر انہیں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا تھا تاہم وہ اس حملے میں وہ جانبر نہ ہوسکی تھیں۔ ان کے کیس میں نامزد ملزمان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے دسمبر 2021 میں 2،2 بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔