نواز شریف بھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اداروں کے ساتھ ٹکراو اختیار کریں۔ خواجہ آصف کی باتوں سے بھی لگتا ہے کہ اختلاف رائے تو ہے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنی مرضی کا چیف لگانے سے سیاسی فائدے حاصل کیے سکتے ہیں۔
یہ کہنا ہے سینیئر صحافی مزمل سہروردی کا جنہوں نے سوموار کی شام نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں کسی کو کچھ بھی نہیں پتہ۔ سب افواہیں چل رہی ہیں۔ میڈیا کو سب نے مذاق بنایا ہوا ہے۔ اب تک صرف رازداری کی جیت ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ راولپنڈی کے ساتھ اختلافات مول لے سکے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی نے کہا کہ ایک ہی بڑی خبر ہے جس کے اوپر پورا ملک شش و پنج کا شکار ہے۔ پورے ملک میں بے چینی کی صورتحال ہے کہ اگلا آرمی چیف کون بنے گا۔ آرمی چیف کی تعنیاتی کی سمری کے اوپر بھی افواہوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سینیئر صحافی سلمان عابد نے کہا کہ اختلاف رائے تو موجود ہے اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کے مطابق تاخیر زیادہ ہو گئی ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت میں کوئی اختلاف تو ہے۔ تاریخ میں جس نے بھی اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کی کوششش کی ہے اس کو نقصان ہوا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ شہباز شریف اداروں سے ٹکراؤ اختیار کریں گے تو یہ بات غلط ہے۔ نواز شریف بھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اداروں کے ساتھ ٹکراؤ اختیار کریں۔ خواجہ آصف کی باتوں سے بھی لگتا ہے کہ اختلاف رائے تو ہے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنی مرضی کا چیف لگانے سے سیاسی فائدے حاصل کیے سکتے ہیں۔
سینئیر صحافی اعجاز احمد نے بتایا کہ نواز شریف اڑے ہوئے ہیں مگر حکومت نے لچک پیدا کی ہے۔ سمری کا آنا قانونی معاملہ ہے۔ سمری سے پہلے بات چیت ہو رہی ہوتی ہے کہ کس کو بنانا ہے۔ حکومت اور راولپنڈی آپس میں اس معاملے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ اعجاز احمد نے کہا کہ ان کی رائے کے مطابق اختلاف رائے موجود ہے۔
پروگرام کے شریک میزبان مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ حل کر لیا جائے گا۔ شہباز شریف کافی لچکدار رویہ رکھتے ہیں۔ نواز شریف کو دیکھنا پڑے گا۔ جنرل باجوہ کی توسیع کے وقت بھی وہ خوش نہیں تھے۔ ڈان لیکس کے وقت بھی اپنے قریبی لوگوں پرویز رشید اور مشاہداللہ خان کو قربان کر دیا تھا۔ پرویز مشرف جب بیمار تھے تو انہوں نے ٹوئیٹ کیا تھا کہ ان کو پرویز مشرف کے پاکستان آنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس وقت عمران خان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تینوں بند گلی میں کھڑے ہیں۔