کالم نگار جاوید چودھری سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بارے میں اپنے حالیہ کالم میں لکھتے ہیں؛
"ان کا گھر ان کی بیگم نے خود بنوایا۔ یہ درمیانے سائز کا صاف ستھرا گھر ہے۔ بیگم صاحبہ کو صفائی اور انٹیریئر ڈیکوریشن کا شوق ہے۔ یہ زندگی بھر مختلف جگہوں سے پرانی لیکن سستی چیزیں (Antiques) خریدتی رہیں۔ انھوں نے یہ چیزیں بڑے خوب صورت طریقے سے گھر میں سجا رکھی ہیں۔ گھر میں بے تحاشہ صفائی ہے۔"
"ایک بار سابق وزیر اعظم عمران خان نے خاتون اول بشریٰ بیگم کے حوالے سے انھیں بتایا؛ کسی نے آپ پر جادو کر رکھا ہے۔ جنرل صاحب نے ہنس کر جواب دیا؛ یہ بات سچ ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں مجھ پر کس نے جادو کیا ہے۔ عمران خان نے پوچھا؛ کس نے؟ جنرل صاحب کا جواب تھا؛ مجھ پر میری بیگم نے جادو کر رکھا ہے۔"
"جنرل باجوہ اپنے اثاثوں سے متعلق خبر پر دکھی ہیں۔ یہ جانتے ہیں ایف بی آر کے اہلکاروں نے 20 لاکھ روپے لے کر 50 لوگوں کا ڈیٹا لیک کیا اور رپورٹر نے صابر مٹھو کے اثاثے ان کے کھاتے میں ڈال کر انھیں بدنام کر دیا۔ یہ اب اپنے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کرا رہے ہیں۔ 1980 سے جب ان کی تنخواہ ساڑھے 14 سو روپے تھی اور یہ جب 29 نومبر 2022 کو ریٹائر ہوئے، یہ اپنے 42 سال کے ایک ایک پیسے کا حساب دیں گے اور پھر فارنزک رپورٹ پبلک کر دیں گے۔"
"یہ چائے بہت اچھی پیتے ہیں۔ کپ میں کیک رس ڈبو کر کھاتے ہیں اور اپنی اس سادگی کو انجوائے کرتے ہیں۔ یہ ہنس کر بتاتے ہیں میاں نواز شریف کا ایک خانساماں چائے بہت اچھی بناتا تھا، وہ میاں صاحب کے ساتھ چلا گیا۔ اس کے بعد وزیراعظم ہاؤس کی چائے اچھی نہیں رہی۔"
"جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلافات کا تاثر عام ہے جبکہ اصل صورت حال مختلف ہے۔ جنرل فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے ملاقات کے لیے بھی آئے اور دونوں اب مل کر ویلفیئر کا کوئی پروجیکٹ بھی بنا رہے ہیں۔"
"یہ عمران خان کی کابینہ کے چند وزراء کی کارکردگی اور محنت کی تعریف کرتے ہیں بالخصوص یہ عبدالحفیظ شیخ کی اپروچ کو یاد کرتے ہیں۔ فروغ نسیم کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ عثمان بزدار اور شہزاد اکبر کو عمران خان کی ناکامی کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ دنیا سے ساڑھے تیرہ ارب ڈالر پاکستان لے کر آئے تھے۔"
"یہ جنرل عاصم منیر کی ایمان داری، پروفیشنل ازم اور ملک سے محبت کے بھی معترف ہیں۔ ان کا خیال ہے جنرل عاصم عربی زبان جانتے ہیں، گلف کے تمام معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے شاہی خاندانوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہ ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں۔ مکمل سولجر ہیں اور ہر قسم کا پریشر برداشت کر لیتے ہیں لہٰذا یہ فوج اور اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے آسانی سے نپٹ لیں گے تاہم ان کو خدشہ ہے کہیں ان کی طرح نئے آرمی چیف کے خلاف بھی ٹرولنگ نہ شروع ہو جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔"