گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں آتشزدگی، 7 مزدور جھلس گئے، 2 کی حالات تشویشناک
حب کے علاقے میں واقع یارڈ کے پلاٹ نمبر 10 پر ناکارہ جہاز کی کٹائی کے دوران انجن روم میں بتی جلانے کے دوران آگ بھڑک اٹھی
2 گھنٹے کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پا لیا گیا، زخمی کراچی منتقل، وزیراعلیٰ جام کمال نے واقعے کا نوٹس لے کر تفصیلات طلب کر لیں
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر قائم گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر 10 میں دوران کام ناکارہ بجری جہاز میں آگ بھڑک اٹھی۔ آتشزدگی سے 7 مزدور جھلس گئے جنہیں فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں پر انہیں طبی امداد دینے کے بعد سول ہسپتال کراچی ریفر کر دیا گیا جہاں دو کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ایس ایچ او محمد جان ساسولی کے مطابق آگ ناکارہ بجری جہاز کے انجن روم میں اس وقت لگی جب مزدور جہاز میں کام کر رہے تھے اور بتی جلانے کے دوران آگ بھڑک اٹھی۔ واقعے میں غفلت کا پہلو نمایاں ہے تاہم پولیس اس حوالے سے مزید تحقیقات کر رہی ہے۔ تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے جہاز میں آتشزدگی کے واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور اس کی تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ یاد رہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ انڈسٹری کے پلاٹ نمبر 60 میں دو سال قبل ناکارہ جہاز کی کٹائی کے دوران آتشزدگی کے نتیجے میں 28 مزدور جاں بحق جبکہ درجنوں جھلس کر زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد آئل ٹینکرز کی کٹائی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم محکمے کی غفلت کے باعث انڈسٹری میں ہیلتھ اور سیفٹی کیلئے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں۔
مجبور کیا گیا تو کسی میثاق کے پابند نہیں ہونگے، اختر مینگل
مہاجرین سمیت دنیا بھر کے یتیموں کو بلوچستان مں آباد جبکہ گوادر کو مقامی مچھیروں کیلئے نوگو ایریا بنا دیا گیا، سربراہ بی این پی
عوامی نمائندے ووٹرز کے مسائل حل کریں، جلسہ عام سے خطاب
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین سمیت پوری دنیا کے یتیموں کو بلوچستان میں لا کر آباد کیا جا رہا ہے اور یہاں کے مقامی لوگوں کو اپنے دیار میں یتیم بنایا جا رہا ہے۔ ہم پاکستان کے آئین و قانون کا احترام کرتے ہیں لیکن جس دن ہم نے محسوس کیا کہ ہمیں اپنی سرزمین سے بے دخل کیا جا رہا ہے ہمارے ساحل و وسائل پر قبضہ کر کے ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ہم اس دن کسی بھی قومی میثاق کے ہرگز پابند نہیں ہوں گے۔ ہمارے ساحل و وسائل پر قبضہ کر کے گوادر میں دوسرے صوبوں سے آنے والوں کو شناختی کارڈ دیئے جا رہے ہیں۔ گوادر کو مقامی مچھیروں کیلئے نو گو ایریا بنا دیا گیا ہے۔ گوادر کی نئی بننے والی سڑکوں پر ان مچھیروں کی گاڑیوں اور ریڑھیوں کو اس لئے چلنے نہیں دیا جاتا کہ ان کی ریڑھیاں سڑک خراب کرتی ہیں جس کی وجہ سے چینیوں کو چلنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے تو کیسے کہیں کہ گوادر ہمارے لئے بنایا جا رہا ہے؟ سردار اختر مینگل نے کہا کہ عوامی نمائندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کے مسائل حل کریں، ان کو تعلیم، صحت، سڑک اور پینے کی ضرورتیں فراہم کریں۔ بدقسمتی سے ہم ووٹ لے کر اپنے وعدوں کو بھول جاتے ہیں، پھر ووٹرز سے ملنے، ان سے ملاقات تک گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اگر ہم حقیقیت پسندی سے کام لیں تو ہم نے عوام کو کچھ نہیں دیا ہے، پھر بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے اوپر اعتماد کرتے ہیں اور ہمیں ووٹ دیتے ہیں۔ اگر نے اپنے دروازوں کو لوگوں پر بند کر دیا، ان کی خوشی اور غم میں شریک نہ ہوئے، ان کے تنازعات کو دیانت و انصاف کے مطابق حل نہ کیا تو لوگ مجبور ہو کر دوسرا کوئی راستہ اختیار کریں گے۔
کوئٹہ، 600 میں سے 150 سرکاری سکول بند، کتب چھپائی میں خورد برد کا انکشاف
کوئٹہ میں 600 میں سے 150 سرکاری سکول بند پڑے ہیں، سرکاری ریکارڈ میں 20 لاکھ کتابیں چھاپی جا رہی ہیں جبکہ حقیقیت میں 12 لاکھ کتابیں ہی چھپ رہی ہیں۔ 8 لاکھ کتابوں کی چھپائی کی رقم خوردبرد کی نذر ہو رہی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی مبین خان خلجی نے کہا ہے کہ بلوچستان کا تعلیمی بجٹ 42 ارب روپے ہے۔ آخر یہ 42 ارب روپے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اکثر سرکاری سکولز کے خود دورے کیے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ ہم اپنے آنے والے مستقبل کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مفت تعلیم اور سہولیات فراہم کرے مگر افسوس یہاں تو بچوں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب تعلیم کے اہم شعبے میں خوردبرد کا نوٹس لے۔ کوئٹہ میں 600 میں سے 150 سرکاری سکول بند ہیں۔ سرکاری سکولوں کیلئے مفت درسی کتب میں بھی خوردبردکی جاتی رہی ہے۔ 20 لاکھ کتب کا کہہ کر 12 لاکھ کتب چھاپی گئیں اور 8 لاکھ کتب کی رقم جیبوں میں چلی گئی۔
بلوچستان، خشک سالی سے حالات گھمبیر ہونے لگے، اکثر اضلاع میں بحران کا خدشہ
نوشکی، واشک، آواران، خاران، تربت، پنجگور و دیگر علاقوں میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی نے ڈیرے ڈال دیئے
زراعت خشک اور جانور مرنے لگے، پشین کلی زرغون میں پانی کی کمی سے نمٹنے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت ڈیم کی تعمیر کا کام شروع
بلوچستان گذشتہ 140 برسوں میں 34 بار خشک سالی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ کئی علاقوں میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور کئی علاقوں میں زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔ بلوچستان کے کل 32 اضلاع ہیں جن میں سے جھل مگسی، نصیر آباد، صحت پور اور سبی کا کچھ حصہ چھوڑ کر بلوچستان کا بقیہ حصہ پہاڑی و نیم پہاڑی ہے۔ رواں برس بھی بارشیں نہ ہونے کے باعث بلوچستان خشک سالی سے گزر رہا ہے۔ 2018 کے ریکارڈ کے مطابق مئی سے اگست تک بلوچستان میں معمول سے کم 45 اعشاریہ 7 فیصد بارشیں ہوئیں۔ بارشوں کی کمی نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور مال مویشیوں کو بھی پریشان حال کر دیا ہے۔ خشک سالی کا مقابلہ کرنے کیلئے مقامی آبادی نے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر کام شروع کیا ہے جس کیلئے انہیں بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کا تعاون حاصل ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے موسموں کا پیٹرن بھی بدل گیا ہے جبکہ 2 برس میں واٹر ٹیبل بھی 200 فٹ نیچے آ گیا ہے۔ ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل طارق زہری کے مطابق بلوچستان میں آنے والا پانی ذخیرہ نہ ہونے کے باعث 80 فیصد پانی ضائع ہو رہا ہے۔ ہم 30 سے 40 فیصد پانی صرف 200 ارب روپے میں محفوظ کر سکتے ہیں اور اس سے پانی کی گرتی سطح واپس اوپر آ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے 5 برسوں میں تمام صوبے اور فیڈریشن اپنے کل بجٹ کا کم از کم ایک تہائی پانی پر خرچ کریں تو پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
پشتونوں کو کوئی طاقت اپنی سرزمین سے نہیں نکال سکتی، سینیٹر عثمان کاکڑ
مہاجرین کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے، صوبائی صدر پشتونخوا میپ
پشتونخوا میپ کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ بعض جماعتیں اور ارکان اسمبلی مہاجرین کے نام پر سیاست کر کے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ پشتون اپنی سرزمین پر آباد ہیں۔ کوئی بھی طاقت پشتونوں کو نکال نہیں سکتی۔ جمہوریت کی بحالی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ کردار ادا کریں گے۔ ضمنی انتخابات میں عوام نے ووٹ کی طاقت سے دھاندلی کو بے نقاب کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات میں ریکارڈ دھاندلی ہوئی مگر 14 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں عوام نے ان کو قوتوں کو مسترد کر دیا جنہوں نے 25 جولائی کو اپنی من پسند جماعتوں کو اقتدار میں لا کر جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی سازش کی ہے۔ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بالادستی کیلئے کردار ادا کیا۔ جب تک ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہونگے، اس وقت تک حالات میں بہتری نہیں آئے گی۔ داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ملک مزید بحرانوں کا شکار ہوگا۔