(اس رپورٹ کی تیاری میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان سٹیزن جرنلسٹ خالد خان کی رپورٹنگ بھی شامل ہے)
خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں کچے گھروں کا یہ گاؤں مندوری کلسٹر 4 افغان پناہ گزین کے لئے بنائے گئے چیچنہ کیمپ کا ایک حصہ ہے۔ چیچنہ کیمپ اقوام متحدہ کی مدد سے 1979 میں سوویت یونین اور مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ افغان مجاہدین کی طویل جنگ سے بے گھر ہونے والے مہاجرین کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کیمپ میں پچھلی 4 دہائیوں سے بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، لیکن یہاں کے باسیوں نے پانی کی شدید قلت کے باوجود اپنی روزمرہ زندگی کا تسلسل برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہاں کی خواتین کے لئے بارش رحمت اور بوندیں زندگی ہے۔
کچے گھروں کی جانب پتھریلے راستوں پر کھیلتی بچیاں، سرخ مٹی میں لت پت، پانچ سال سے کم اور زیادہ عمر کے بچے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے بنائے گئے تالاب کے پانی سے بہت مانوس ہیں۔ اس علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح بہت نیچے جا چکی ہے۔ باسیوں کے مطابق تقریباً 50 گز بور کرنے پر بھی پانی نہیں مل رہا۔ کیمپ میں آباد افغان پناہ گزین سالوں سے پانی کی قلت کا مقابلہ کرنے کے لئے بارش کے پانی کو تالابوں اور گھروں میں محفوظ کر رہے ہیں۔ کلسٹر 4 میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی تمام تر ذمہ داری خواتین اور ان کے بچوں پر ہے۔
40 سالا گل مکئی (یہ فرضی نام ہے، کلچر اور روایات کے باعث شناخت چھپائی جا رہی ہے) نے بتایا کہ جب بھی آسمان پر بادل گہرے ہو جاتے ہیں تو وہ بچوں کے ساتھ بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے گھڑے، مٹکے، بالٹیاں اور ڈرم اکٹھا کر دیتی ہیں۔ گل مکئی سمیت گاؤں کی تمام خواتین اپنے بچوں کے ساتھ گھروں میں بارش کی بوندیں ذخیرہ کرتی ہیں۔
گل نے کہا کہ یہ آسان کام ہرگز نہیں ہے، لیکن یہ ہماری مجبوری ہے، کیونکہ اسی پانی سے ہماری روزمرہ زندگی وابستہ ہے۔ جب جمع کیے گئے پانی کی مٹی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے وہ پانی کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
پینے کے لئے پانی گاؤں میں موجود ایک واٹر پمپ سے مل جاتا ہے۔ گاؤں میں 6 واٹر پمپ ہیں جن میں سے صرف 2 میں پانی آتا ہے۔ وہ پانی اپنی باری آنے پر ملتا ہے۔ گل مکئی نے کہا کہ ہمارے پانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، ہم بڑی احتیاط کے ساتھ پانی کا استعمال کرتے ہیں، کپڑے دھونے کا پانی بھی استعمال میں لاتے ہیں جیسے صحن کی صفائی اور گوبر کے اپلے وغیرہ بنانے کے لئے۔ گل نے بتایا کہ پانی ذخیرہ کرنے کی ذمہ داری خواتین پر ہے، مرد تو گھروں سے باہر مزدوری کے لئے جاتے ہیں، ہم اس پانی کا خیال رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تالاب کا پانی ہمارے لئے نعمت سے کم نہیں، گاؤں کی خواتین اس تالاب کی حفاظت خود کرتی ہیں۔ کپڑے دھوتے وقت ضائع پانی تالاب میں نہیں ڈالتیں کیونکہ یہ پانی ہمارے جانوروں نے بھی پینا ہے۔
کلائمیٹ چینج اور پانی کی قلت
ملک کے دیگر حصوں کی طرح ضلع کوہاٹ بھی کلائمیٹ چینج کے اثرات سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔ ضلع کے محکمہ پبلک ہیلتھ اور ایریگیشن کی معلومات کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں پانی کی سطح 15 سے 20 فٹ نیچے جا چکی ہے، جس کی بنیادی وجوہات پانی کا بے دریغ استعمال اور کلائمیٹ چینج ہیں۔ ایرگیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ زراعت کے لئے استعمال ہونے والے ٹیوب ویلز زیر زمین پانی کی سطح کو نیچے کر رہے ہیں، اس کی روک تھام کے حوالے سے ضلعی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے دوسرے شہروں میں بھی زیر زمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ پشاور میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فہیم نے بتایا کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے پہلے جو ہلکی بارشیں پانچ دنوں تک جاری رہتی تھیں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو ریچارج کرنے میں مدد دیتی تھیں، اب وہ تیز موسلا دھار بارش کی شکل میں ایک گھنٹے کے اندر برس جاتی ہیں جو فلیش فلڈ کا سبب بنتی ہیں۔ فہیم نے مزید بتایا کہ بارشوں کے اوقات میں تبدیلی تیزی سے رونما ہو رہی ہے، سردیاں خشک جبکہ مون سون سے پہلے طوفانی بارشیں لوگوں کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ دوسری وجہ طویل دورانیے کی شدید گرمی ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمیٹ چینج کے باعث طویل خشک سالی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔
کیمپ میں افغان شہریوں کی زندگی
چیچنہ کیمپ کی کل آبادی تقریباً ساڑھے 4 ہزار افراد پر مشتمل ہے، اور یہاں زیادہ تر مہاجرین افغانستان کے پکتیکا علاقے سے ذادران قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مندوری کلسٹر 4 میں 72 خاندان بستے ہیں۔ کیمپ میں رہائش پذیر 65 سالہ محمدی جان نے بتایا کہ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ پہلے وزیرستان آئے تھے، چند مہینے بعد اقوام متحدہ نے یہاں چیچنہ کیمپ قائم کیا اور انہوں نے اس کیمپ میں ہجرت کی۔ جان نے بتایا کہ کیمپ کی زندگی مشکل زندگی تھی، پکتیکا علاقہ بہت زرخیز تھا، وہاں پانی کی کوئی کمی نہیں تھی، اس کیمپ میں آ کر سب سے پہلہ مسئلہ ہمارا پانی کا تھا۔ جان نے بتایا کہ شروع مہینوں میں خٹک قبیلے کے لوگوں نے ان کی مدد کی، ہماری خواتین مقامی لوگوں کے گھروں میں کنوؤں سے پانی لایا کرتی تھیں۔ لیکن ہمیں کوئی مستقل حل تلاش کرنا تھا، اس لئے ہم نے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی ٹھان لی اور یہاں پر پہاڑوں کے دامن میں تالاب بنا دیے۔ جان نے بتایا کہ پانی ذخیرہ کرنے کا یہ طریقہ کافی پرانا اور روایتی ہے۔
27 سالہ شریف اللہ جو اس کیمپ میں پیدا ہوئے، انہوں نے بتایا کہ پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ہمارے بڑوں نے یہ طریقہ اپنایا تھا۔ شریف نے بتایا کہ کیمپ میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی کے لئے واٹر پمپ کا بندوبست کیا ہوا ہے لیکن چند سالوں سے پانی کی سطح نیچے جانے سے اب وہ ناکارہ ہو چکے ہیں۔ شریف اللہ نے بتایا کہ کیمپ میں زندگی آسان نہیں ہے، یہاں بہت سی مشکلات ہیں۔ کیمپ کے 70 فیصد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں، یہاں لڑکیوں کے لئے کوئی سکول موجود نہیں ہے، البتہ یو این ایچ سی آر کی مدد سے ایک ان فارمل سکول موجود ہے جہاں ہفتے میں چند گھنٹے لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ کیمپ کے مسائل کے حوالے سے ہم نے مختلف سماجی اداروں سے رابطہ کیا تاہم ہم ان کے وعدوں کے انتظار میں ہیں کہ کب ہورے ہوں گے۔
کیمپ میں افغان پناہ گزینوں کے مسائل کے حوالے سے ہم نے پشاور میں ادارہ ہائی کمشنر اقوام متحدہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) سے رابطہ کیا، تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یو این ایچ سی آر کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ساڑے 14 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے پاس پروف آف رجسٹریشن یعنی پی او آر کارڈ موجود ہے، جو انہیں پاکستان میں قانونی حیثیت اور کچھ خدمات تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ چیچنہ کے بیش تر لوگوں کے پاس پی او آر کارڈز موجود ہیں، اس کے علاوہ 8 لاکھ 40 ہزار افغان شہریوں کے پاس افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہیں، جنہیں غیر دستاویزی شمار کیا جاتا ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد 6 لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان آ چکے ہیں، جن میں سے بہت سے رجسٹرڈ نہیں ہیں اور انہیں پاکستان کے فارنرز ایکٹ کے تحت ملک بدری کے خطرے کا سامنا ہے۔
ماحولیاتی بحران اور افغان شہریوں کی ماحول دوست زندگی
عالمی ماحولیاتی بحران کے زیرِ سایہ افغانستان اور پاکستان کی بدلتی پالیسیوں کے اثرات چیچنہ کیمپ پر بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ تاہم یہاں کے باشندوں نے ماحولیاتی تبدیلی اور بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے روایتی مگر ماحول دوست طریقے اختیار کیے ہیں، جن سے کوہاٹ میں مقیم پاکستانی باشندے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شریف اللہ نے بتایا کہ جب انسان مشکل میں ہوتا ہے تو وہ اس کا حل جلد ہی تلاش کرتا ہے، بارش کا پانی ذخیرہ کرنا اور سولر انرجی کو استعمال میں لانا ہمارے لئے ضروری تھا۔ شریف نے کہا کہ پاکستان میں لوگ سولر توانائی کی جانب اب متوجہ ہو رہے ہیں جبکہ اس کیمپ میں 2005 سے سولر موجود ہے۔ کیمپ میں بجلی اور پانی کی سہولت بہت پہلے سے نہیں تھی لیکن ہم لوگوں نے اس کا حل بہت جلد ڈھونڈ لیا تھا۔ یہاں کے کچے گھروں میں ہوا کے لئے دونوں طرف کھڑکیاں بناتے ہیں، پکے گھروں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ تنگ ہوتے ہیں جبکہ ہمارا وقت ان کچے کمروں میں اچھا گزرتا ہے، یہ گرمی میں ٹھنڈے جبکہ سردیوں میں گرم ہوتے ہیں۔
کیمپ کے وہ نوجوان جو دیہاڑی مزدوری کرتے تھے، اب انہوں نے سولر توانائی کی مدد سے اپنا روزگار شروع کیا ہے۔ کوہاٹ بازار میں افغان شہری کلیم اللہ نے بھی سولر کی مدد سے اپنا روزگار مستحکم کیا ہے۔ کلیم نے بتایا کہ وہ درزی ہے اور اس نے سولر کی مدد سے اپنی دکان مستحکم کی ہے۔ کلیم نے بتایا کہ اب بازار میں بہت سے مقامی لوگ بھی سولر توانائی کی طرف آ رہے ہیں۔
مندوری گاؤں کے ایک پاکستانی شہری 57 سالہ رحمان گل تالاب میں ہاتھ پاؤں دھو رہے تھے اور ساتھ ان کی 4 بکریاں بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تالاب سے پاکستانی شہری بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گل نے بتایا جب خشک سالی تھی اور 4 مہینے بارشیں نہیں ہوئی تھیں تب یہاں بہت جنگلی جانور جیسے سور، گیدڑ اور کتے مرے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں رحمان نے بتایا کہ ہمارے گھروں میں صاف پانی کی سہولت موجود ہے لیکن چونکہ یہ افغان ہیں اس لئے حکومت ان کو یہ سہولت نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں نے جتنے تالاب بنائے ہیں وہ جنگلی جانوروں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
ماحولیاتی بحران اور خواتین
موسمیاتی بحران خواتین کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں جہاں وہ اپنی روزی روٹی کے لیے قدرتی وسائل پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی سے بے گھر ہونے والوں میں سے 80 فیصد خواتین ہیں۔ یہ کمزوری وسائل تک غیر مساوی رسائی، فیصلہ سازی کی طاقت میں کمی اور غربت کی بڑھتی ہوئی سطحوں کی وجہ سے ہے۔ یاد رہے پاکستان اُن 10 ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق خواتین کی شمولیت کے بغیر اس عالمی بحران پر قابو پانا ممکن نہیں، کیونکہ خواتین کا ماحول سے تعلق مردوں کے مقابلے میں زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں مقیم اینوائرمنٹل جرنلسٹ محمد داؤد خان کے مطابق پاکستان اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا کی خواتین کلائمیٹ کرائسز سے زیادہ ایکسپوز ہیں، شدید موسمی واقعات میں اضافے، خشک سالی اورطوفانی بارشوں کی وجہ سے عمومی طور پر خواتین اور بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ داؤد نے بتایا کہ خواتین چونکہ ماحول سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتی ہیں خاص کر ان کا گزر پانی کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان کو پانی کی اہمیت کا بھی زیادہ پتہ ہوتا ہے۔ داؤد نے مزید بتایا کہ پاکستان کلائمیٹ چینج کے شکنجے میں ہے لیکن بدقسمتی سے ماحولیاتی بحران کے حل کے لئے خواتین کی رائے ہماری ماحولیاتی پالیسیوں کا حصہ نہیں ہوتی۔ ہمیں جس بحران کا سامنا ہے اس کا حل ڈھونڈنے میں خواتین کے کردار اور رائے کے بغیر ماحولیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
چیچنہ کیمپ کی افغان خواتین نے اپنے ماحول سے ہم آہنگ طریقے اپناتے ہوئے پانی اور توانائی کا تحفظ کیا ہے، اور ان کی یہ کاوش ناصرف ان کی اپنی زندگیوں کو بہتر بنا رہی ہے، بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔