افغان پناہ گزین ہو اس لئے داخلہ نہیں ملے گا: میٹرک میں بورڈ کا پوزیشن ہولڈر نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لئے در بدر

افغان پناہ گزین ہو اس لئے داخلہ نہیں ملے گا: میٹرک میں بورڈ کا پوزیشن ہولڈر نوجوان اعلیٰ تعلیم کے لئے در بدر

محبوب الرحمان نے جب مردان تعلیمی بورڈ کے میٹرک کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو ان کے بہت چرچے ہوئے تاہم جب اپنی کامیابی کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کالج میں داخلہ لینے کے لیے قدم بڑھایا تو ان کی شہریت آڑے آگئی۔


انڈیپینڈینٹ اردو نے محبوب الرحمٰن کی کہانی بتائی ہے۔ کہانی کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے کے باوجود افغان پناہ گزین ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی خواہش کے مطابق خیبرپختونخوا کے اعلیٰ سرکاری تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں مل رہا تاہم نجی تعلیمی ادارے سکالرشپ آفر کر رہے ہیں۔


 

اکوڑہ خٹک کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر طالب علم محبوب الرحمان نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے میٹرک کے امتحان سال 2020 میں گیارہ سو میں سے 1090 نمبرز لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی۔


وہ بتاتے ہیں کہ ان کی سخت محنت اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی اور والدین کی دعائیں رنگ لائی اور میٹرک کے امتحان میں انہوں نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔


گیارہ سو میں یہ دس نمبر کیسے کم رہے؟


محبوب الرحمان نے کہا: 'میں نے جماعت نہم میں 550میں سے 537نمبر حاصل کیے تھے اور میٹرک کے امتحان شروع ہونا ہی تھا کہ کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے امتحانات منسوخ ہوئے تو بورڈ کی انتطامیہ نے ایک منظور شدہ فارمولے کے تحت نہم کے حاصل کردہ نمبروں کو دوکے ساتھ ضرب دی اور ساتھ ہی تین فیصد ایگریگیٹ نمبر بھی جمع کیے جس سے میرے 1090 نمبربن گئے۔'


سوال کیا گیا کہ اگر امتحان لیے جاتے تو کیا زیادہ نمبر آتے تو محبوب الرحمان نے کہا: 'میری یہی خواہش تھی کہ امتحان لیے جائیں کیونکہ جماعت نہم کے نتیجے میں مجھ سے ایک اور طالب علم صرف ایک نمبر کے ساتھ  آگے تھا۔ اس کے 538مارکس تھے اور میرے537تھے اور میرا ٹارگٹ یہی تھا کہ اس کو پار کرکے آگے نکل جاؤں، لیکن بدقسمتی سے کرونا وباکی وجہ سے ہم سب کے نمبر وہی رہے اور اس کی پہلی پوزیشن 1092کے ساتھ اور میری دوسری پوزیشن 1090 کے ساتھ آگئی۔'


تعلیمی سفر


محبوب بتاتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے میں معاشی مشکلات بہت تھیں لیکن ان کے والد نے سکول کی فیس سے لے کر ٹیوشن اور اکیڈیمی کی فیس تک، تمام خرچہ اٹھایا۔ جبکہ جماعت نہم میں اچھیے نمبر لینے پر سکول والوں نے انہیں سکالرشپ بھی بی دی۔








ان کے بقول: 'میرے والد اکوڑہ خٹک بازار میں پھلوں کی ریڑی لگاتے ہیں اور اس کی آمدنی سے ہمارے سکول کے اور گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔'


محبوب بتاتے ہیں کہ ان سے چھوٹا بھائی ساتویں کلاس میں پڑھتا ہے اور وہ بھی اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن  لیتا ہے، تیسرا بھائی چوتھی جماعت میں پوزیشن لیتا ہے اور چھوتا ابھی چھوٹا ہے۔


محبوب کے مطابق سب بھائی نجی سکول میں پڑھتے ہیں کیونکہ مہاجر کیمپ میں جو یو این ایچ سی آر کے سکول ہیں ان میں الگ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ایسے میں بارہویں جماعت کے بعد پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں دیا جاتا اس لیے وہ پاکستان کے تعلیمی ادارے میں پڑھ رہے تاکہ آگے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔


اعلیٰ تعلیم


محبوب نے میٹرک میں سائنس مضامین لیے تھے اور اب ایف ایس سی میں پری میڈیکل سبجیکٹ لینا چاہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر بن کر ملک ودین کا خدمت کرنے کے خواہش مند ہیں۔


محبوب کے مطابق ان کی خواہش بھی کہ وہ تاریخی تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیں لیکن جب میٹرک میں اچھے نمبر لے کر وہ اسلامیہ کالج میں داخلے کے لیے گئے تو انتظامیہ نے کہا کہ انہیں اسی صورت میں داخلہ ملے گا کہ ان کے پاس افغانسان کا پاس پورٹ اور پاکستان کا ویزا ہو۔


'میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس پی او آر کارڈ یعنی افغانستان سیٹیزن پروف آف رجسٹریشن کارڈ ہے جو کہ یو این ایچ سی آر والوں کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اور مجھے بغیر ویزا کے پاکستان میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔میں اپنے ساتھ افغان مہاجرین کی کمشنریٹ خیبرپختونخوا کے انچارج احسان اللہ کو بھی اسلامہ کالج کے وائس چانسلر کے پاس لے گیا لیکن داخلہ نہیں دیا گیا۔'








 انہوں نے کہا کہ اسلامیہ کالج میں افغان طلبہ کے لیے دس سیٹیں بھی مختص ہیں لیکن انتظامہ نے بتایا کہ یہ ان کے لیے ہیں جن کے افغان پاس پورٹ اور پاکستان کا ویزا ہے۔ محبوب الرحمان نے کہا کہ اسلامیہ کالج میں داخلے کی خواہش میں وہ پاس پورٹ اور ویزے کے لیے افغانستان بھی چلے جاتے مگر کرونا وائرس کی وجہ سے پچھلے چار ماہ سے سرحد بند ہونے کی وجہ سے وہ نہیں گئے اور اس لیے بھی کہ انہوں نے سن رکھا ہے کہ اُس طرف سے لوگوں کو واپس نہیں آنے دیا جاتا۔


وہ بتاتے ہیں: 'نجی کالج تو مجھے سکالرشپ بھی دے رہے ہیں لیکن میری خواہش ہے کہ میں اسلامہ کالج پشاور میں پڑھوں۔'


انہوں نے کہا: 'افغان کمشنریٹ کو جب میرے بارے میں پتہ چلا تو مجھے اسلام آباد اور پشاور میں اپنے دفتر بھی بھلا لیا اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ میں افغان کونسلیٹ پشاور بھی گیا لیکن جو وعدے میرے ساتھ کیے گئے کہ آگے تعلیم میں ساتھ دیں گے اور اخراجات بھی پورے کریں گے اس سلسلے میں ابھی تک کمشنریٹ کی جانب سےکچھ بھی نہیں کیا گیا۔'


ان کے والد عبدالقیوم نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا خاندان آج سے 38سال پہلے افغان جنگ کے دوران پاکستان منتقل ہوا تھا۔ 'مجھے بے حد خوشی ہے کہ میرے بیٹے نے اپنی محنت سے اچھے نمبر حاصل کیے اور بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔ میری خواہش ہے کہ میرے بچے اچھی تعلیم حاصل کرکے معاشرے کے اچھی شہری بنے اور دکھی انسانیت کا خدمت کرسکیں۔'