’حضور، بیمار ہوں‘: نیب کی دستک اور ٹوٹے ہوئے خواب

’حضور، بیمار ہوں‘: نیب کی دستک اور ٹوٹے ہوئے خواب
عہد خرابا میں وزیر اعظم عمران کی بجائے اگر نواز شریف یا کوئی اور ہوتا تو کیا وہ بھی یہی کرتا جو عمران خان حکومت کر رہی ہے؟ بالکل یہی کرتا اور یہی کر سکتا تھا۔ مسئلہ تو نظام کا ہوتا ہے۔ چہرے بدلنے سے تو تبدلی نہیں آتی اور جب تبدیلی بھی کنٹرولڈ ہو تو پھر جرأت و بہادری دکھانے پر گھر جانا پڑتا ہے یا پھر پھانسی گھاٹ پہنچا دیا جاتا ہے۔ حالات و واقعات کے مطابق عمران خان ٹھیک چل رہے ہیں۔ اس معاملے میں عمران خان زیادہ سمجھدار واقع ہوئے ہیں کہ عمران خان کو چلانے والے کمال کی احتیاط برت رہے ہیں۔

عمران خان حکومت تاریخی تسلسل کی ایک ایسی کڑی ہے کہ جس کے ڈھانڈے 1968 سے قبل کے حالات سے ملائے جا سکتے ہیں یا ملتے ہیں۔ جب اقتدار کی غلام گردشوں پر کنٹرول کی رسہ کشی عروج پر رہتی تھی۔ رات کی مخلوط محفلوں میں صبح کے لئے فیصلے وقوع پذیر ہو جاتے اور اقتدار کا سورج کسی نئے محل کی بالکونی سے طلوع ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔ ہوتا آج بھی یہی ہے کہ فیصلے محفل شب میں ہی کیے جا رہے ہیں مگر شریک محفل نورتن نہیں ہیں۔

مسئلہ اعتماد کا ہے۔ جب اعتماد اٹھ جاتا ہے تو پھر محفلوں کے رنگ ہی نہیں بدلتے ہیں، شریکِ محفل بھی بدل جاتے ہیں۔ جام بدل جاتے ہیں۔ نام بدل جاتے ہیں۔ آپ سے تو اور تو سے تم جیسے القاب آتے ہیں جن کے نام سے پہلے کبھی جناب آتا تھا۔ پھر بس حجاب آتا ہے۔ مخالف قوتوں میں اعتماد سازی کی کوشش خود کو دھوکا دینا ہے یا پھر مخالف کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔



نئی سیاسی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ نورتن بظاہر تو زیرِ عتاب ہیں مگر ان کی امید کے چراغ گل نہیں ہونے دیے جاتے ہیں۔ کبھی ان ہاؤس تبدیلی، صداراتی نظام اور کبھی قومی حکومت کے قیام سے دل بہلائے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بہل بھی جاتے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں؟ منہ کو جو لگی ہے۔ موئی چھوٹتی کب ہے۔ رحم آ گیا ہوگا۔ پرانی خدمات کی یاد آئی ہوں گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ بنتی تو ہم سے ہی ہے۔ فطری خدمت گار تو ہم ہی ہیں۔ اناڑیوں سے تھک گئے ہوں گے۔ شاید یہی سوچ کر بہلاوا یقین میں بدل لیتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ نئے بال لگوا لیے جاتے ہیں۔ نئی شیروانی بھی آ جاتی ہے۔  تندرست اور توانا لگنے کے سو جتن بھی کیے جاتے ہیں۔

ملاقاتوں کے نئے سلسلے شروع کیے جاتے ہیں۔ شک کرنے والوں کو بھی یقین دلایا جاتا ہے کہ اب کی بار ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیا بات کرتے ہو؟ منت سماجت پر اترے ہوئے ہیں۔ ناتجربہ کار لوگوں کے ساتھ کب تک چل سکتے تھے بلکہ چل ہی نہیں سکتے تھے۔ تجربہ مکمل ناکام ہو گیا ہے۔ جان چھڑا رہے ہیں۔ ہمارے پاس آنا ان کی مجبوری بن چکا ہے۔ بات سوفیصد پکی ہے۔ آپ تیار رہیں۔



سوال آتے ہیں۔ کیا ہونے جارہا ہے؟ صداراتی نظام اور نہ ہی ان ہاؤس تبدیلی کی بات ہے۔ دس سال کے لئے قومی حکومت بنے گی۔ مرکز ہمارے پاس ہوگا۔ دو صوبے بھی مل سکتے ہیں۔ سچ ہے۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ ایک طرف سر گوشی ہوتی ہے۔ وزارتِ داخلہ کس کو ملے گی؟ دوست دم رکھو! کر لیں گے۔ جب مرکز اور دو صوبے بھی ہمارے پاس ہوں گے تو کیا وزارتوں کی کوئی کمی رہ جائے گی؟ اتحادیوں پر بھی بحث چل نکلتی ہے۔

خواب ٹوٹتے ہیں۔ نیب میں پیش نہیں ہو سکتا ہوں۔ بیمار ہوں۔ عمر بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ مدافعتی نظام کمزور ہے۔ کرونا ہو سکتا ہے۔ جناح کیپ اور انگریزی ٹوپی کے بغیر بکھرے بالوں والی بے حال بوڑھے کی تصویر میڈیا کو جاری کر دی جاتی ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔