نواز کھرل ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، مجلسی آدمی جہاں جاتے ہیں دوستوں کی منڈلی سجا لیتے ہیں۔ ان کو احباب سے ملنے ملانے راہ رسم بڑھائے کا خوب فن آتا ہے۔ قدرت نے مزاج ایسا شریں دیا ہے کہ ایک بار جو مل لے وہ ان کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔
انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں ایک بھرپور زندگی گزاری پھر اب ادب اور صحافت کے ہو کر رہ گئے۔ جس ادارے میں بھی جاتے وہاں ادبیوں، شاعروں اور صحافیوں کی محفلیں منعقد کرواتے ہیں۔ نواز کھرل نے یہ کام لاھور میں تو کیا ہی تھا مگر لندن میں بھی ایک محفل برپا کر دی۔ وہ کچھ عرصے سے لندن میں مقیم ہیں اور ایک بہت بڑے فلاحی ادارے المصطفیٰ ٹرسٹ سے وابستہ ہیں جس کے روح رواں عبدلرزاق ساجد اپنے فلاحی کاموں کے باعث پورے لندن میں جانے جاتے ہیں، پاکستان میں بھی انکے لاتعداد فلاحی منصوبے چل رہے ہیں جن میں پینے کے صاف پانی اور غربیوں کے لئے آنکھوں کے مفت علاج جیسا شاندار منصوبہ شامل ہے۔
عوام الناس کی آنکھوں کو روشنی سے منور کرنے والے عبدلرزاق ساجد ایک علم دوست شخصیت ہیں، ان کے زیر اہتمام لندن میں ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستانی صحافت کے سپر اسٹار سہیل وڑائچ معروف شاعرہ اور ادبیہ نیلما درانی، صابر علی صابر، طاہرہ سرا، گونیلا حسنین، رقم الحروف اور لندن میں رہنے والے پاکستانی شاعروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ محفل مشاعرہ منعقد ہوا اور پاکستان کی سیاست پر اظہار خیال کیا گیا۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے، انکی بھیجی گئی ترسیلات پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ پاکستان میں اپنے ووٹ کے حق سے محروم کیے جانے پر بہت برہم ہیں، جب وہ ہماری معیشت کو سہارا دے سکتے تو پھر انہیں ووٹ کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟
حرف آخر پاکستان کے ادبیوں شاعروں اور صحافیوں نے نواز کھرل کی میزبانی میں خوب منڈلی سجا دی تھی، یوں لندن میں ایک چھوٹا سا پاکستان آباد کر دیا۔ جس رستوران میں تقریب ہوئی اس کانام بھی پاکستان کے ادبی صحافتی دبستان لاہور کے نام پر آباد تھا۔ ، یوں اُردو زبان وادب صحافت اور لاھور کو لندن میں بھی آباد کیا گیا۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔