19 دسمبر 2021 کو ہونے والے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی شکست کے بعد بیشتر صوبائی و وفاقی وزرا بشمول شہرام ترکئی، عاطف خان، شوکت یوسفزئی اور شبلی فراز نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی بڑی وجہ ملک میں بڑھتی مہنگائی کو قرار دیا۔
پاکستانی عوام وزیر اعظم عمران خان سے بھی یہی توقع کر رہے تھے کہ وہ ان بلدیاتی انتخابات میں ملی شکست کی حقیقی وجوہات کو تسلیم کریں گے اور غلط فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ملکی معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کا عہد کریں گے مگر اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان نے اپنی "میں سب سے بہتر سمجھتا ہوں" والی تھیوری پر قائم رہتے ہوئے ایک ٹوئیٹ کی کہ بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم تھی اور کہا کہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کی نگرانی خود کریں گے۔
کوئی بھی دلیل اس وقت تک مضبوط نہیں مانی جا سکتی جب تک اس کے ساتھ کوئی ثبوت شامل نہ کیا جائے۔ اگر عمران خان کی شکست کے بارے میں دی گئی دلیل درست ہے تو پھر انہیں وہ چند نام بھی سامنے لانے چاہئیں جن کو ٹکٹ دینا غلط تھا اور ان لوگوں کے نام بھی سامنے لانے چاہئیں جنہوں نے ان ٹکٹوں کی تقسیم کا کام سرانجام دیا مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے ٹکٹ انہی لوگوں کو دیے جن کو انہوں نے 2018 میں ٹکٹ دیے تھے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کا شمار ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تھا۔
2018 کے انتخابات میں ضلع ہری پور کے صوبائی حلقہ پی کے 40 سے پاکستان تحریک انصاف کے اکبر ایوب کامیاب ہوئے۔ پی کے 41 سے پاکستان تحریک انصاف کے ارشد ایوب کامیاب ہوئے۔ پی کے 42 سے فیصل زمان کامیاب ہوئے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے غیر اعلانیہ حمایت یافتہ تھے۔ اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 17 سے عمر ایوب کامیاب ہوئے۔ یہاں پر یہ بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پی کے 40 اور 41 سے کامیاب ہونے والے ممبران ارشد ایوب اور اکبر ایوب دونوں بھائی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے تیسرے بھائی یوسف ایوب پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم رہنما اور ہزارہ ڈویژن میں تحریک انصاف کی کمپین چلانے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ حلقہ این اے 17 سے کامیاب ہونے والے عمر ایوب ان کے چچا زاد بھائی ہیں جو کہ 2018 سے اب تک وفاقی وزیر بھی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے لئے بھی پاکستان تحریک انصاف نے یوسف ایوب کے توسط سے ہی ضلع ہری پور کی تین تحصیلوں (ہری پور،غازی اور خان پور) کے لئے اپنے امیدوار چنے۔ تحصیل خانپور میں راجہ شہاب سکندر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تحصیل چیئرمین کے امیدوار تھے جن کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ ہارون سکندر سے تھا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ راجہ شہاب سکندر اور راجہ ہارون سکندر دونوں سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا راجہ سکندر زمان کے پوتے ہیں۔
ضلع ہری پور کی دوسری تحصیل ہری پور میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی اختر نواز خان کر رہے تھے جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما یوسف ایوب کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے مد مقابل مضبوط امیدوار سمیع اللہ خان تھے جو کہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ سمیع اللہ خان کا تعلق ضلع ہری پور کے نامور سیاسی خاندان سے ہے۔ ان کے چچا گوہر نواز خان ایم پی اے اور ان کے چچا زاد بھائی بابر نواز خان مسلم لیگ ن کے ایم این اے رہ چکے ہیں۔
ضلع ہری پور کی تیسری تحصیل غازی ہے۔ یہاں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی نوید اقبال کر رہے تھے جن کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے محمد قاسم شاہ سے تھا جو کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر پیر صابر شاہ کے بھتیجے ہیں۔
تینوں تحصیلوں میں الیکشن کمپین چلانے میں امیدواراں کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما یوسف ایوب نے بھی بھرپور کردار ادا کیا اور لوگوں کو الیکشن جیتنے کے بعد بیشتر ترقیاتی کام کروانے کا وعدہ کیا مگر ان تمام کاوشوں اور کوششوں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف ان تینوں تحصیلوں میں بری طرح ناکام رہی۔ تحصیل خانپور اور غازی میں پاکستان تحریک انصاف کو مسلم لیگ نون کے نمائندگان نے شکست سے دوچار کیا جب کہ تحصیل ہری پور میں پاکستان تحریک انصاف کو آزاد امیدوار سمیع اللہ خان نے 12 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔
ان تمام تر زمینی حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن میں شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے الیکشن میں شکست کی غیر واضح وجہ بتا کر حقیقی مسائل پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ اگر شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم ہوتی تو پاکستان تحریک انصاف ضلع ہری پور میں جہاں اس نے 2018 میں کلین سویپ کیا تھا صرف تین سالوں بعد اتنی بری طرح نہ ہارتی۔
مہنگائی کے بخار سے تپتے عوام جان چکے ہیں کہ اس حکومت سے کسی بھی قسم کی بہتری کی امید رکھنا محض ایک خوش فہمی ہی ہوگی۔ تبدیلی کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل 'نیا پاکستان' کا تصور پیش کیا تھا اور عوام کو بہتر معاشی اقتصادی اور سیاسی حالات کے سبز باغ دکھائے تھے مگر اگست 2018 سے لے کر اب تک گرتے معاشی اشاریوں، روپے کی قدر میں کمی، اور اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی بیش بہا اضافے نے پاکستانی عوام کے تمام خواب ایک ایک کر کے چکنا چور کر دیے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد حکومت سے پہلے ہی تین سالوں میں اٹھ چکا ہے اور اس بات کا ثبوت نوشہرہ، کراچی اور خانیوال کے ضمنی انتخابات ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کو بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ان ضمنی انتخابات میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد یہ بات واضح تھی کہ آئندہ آنے والے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات پاکستان تحریک انصاف کے لئے کوئی نوید لے کر نہیں آ رہے اور بالکل ایسا ہی ہوا کیونکہ ایک طرف روز بروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام کا غم و غصہ اور دوسری جانب امپائر نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف کا ایک بار پھر سلیکٹ ہو جانا ناممکن تھا۔