جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں کو گرانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ضلع فیصل آباد کی پولیس کی جانب سے احمدیوں کی عبادت گاہ کی بےحرمتی کا واقعہ پیش آیا ہے۔پولیس اور مقامی انتظامیہ نے فیصل آباد میں احمدیوں کی عبادت گاہ مسماری کی نگرانی کی، کمیونٹی نے جمعہ کو دعویٰ کیا۔
احمدیہ کمیونٹی کے ایک نمائندے نے متاثرہ عبادت گاہ کی تصاویر اور ویڈیوزشیئر کیں اور بتایا کہ 22 دسمبر کو پولیس اہلکار ضلع فیصل آباد کے علاقے سمندری میں واقع احمدیوں کی عبادت گاہ 'احمدیہ بیت الذکر' پر پہنچے۔ ایک بیان میں کمیونٹی ممبران نے کہا کہ پولیس نے ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ کی مسمار کی جبکہ مقامی اسسٹنٹ کمشنر نے اس عمل کی نگرانی کی جہاں عبادت گاہ کے مینار کو تباہ کیا گیا۔ میناروں کو تباہ کرنے کے بعد پولیس عمارت کا ملبہ بھی ساتھ لے گئی۔
جماعت احمدیہ کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ احمدیہ عبادت گاہ کو نصف شب میں نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ اس کی عمارت 1956 میں تعمیر کی گئی تھی اور گزشتہ سال سے انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں تاہم حکام کل تک صورتحال کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہے لیکن جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں پولیس اور مقامی انتظامیہ نے عمارت کے مینار مسمار کر دیے۔
کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمرہ فوٹیج میں دکھا جا سکتا ہے کہ ایک درجن کے قریب آدمی آدھی رات کو اس سرگرمی کو انجام دے رہے ہیں۔
احمدیہ برادری نے کہا کہ رواں سال احمدیوں کی عبادت گاہ مسمار کیے جانے کا 42 واں واقعہ ہے ۔
کمیونٹی نے دعویٰ کیا کہ جب پولیس کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بارے میں بتایا گیا جس میں 1984 کے قانون سے پہلے تعمیر ہونے والی احمدیوں کی عبادت گاہوں کو اس قانون سے محفوظ قرار دیا گیا تھا جس کے تحت ان ڈھانچوں کو مساجد سے مشابہت سے روکا گیا تھا، تو پولیس نے مبینہ طور پر اسے مکمل طور پر نظرانداز کیا اور کہا کہ وہ 'حکم' پر عمل کر رہے ہیں۔
کمیونٹی نے شکایت کی ہے کہ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان میں احمدی اپنے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جماعت احمدیہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی صریح خلاف ورزی کا جائزہ لے اور مجرموں کا احتساب کرے۔ مزید یہ کہ احمدیہ عبادت گاہوں کو 2014 میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے کے مطابق سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے۔