عبادت گاہ کے مینار گرانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے: جماعت احمدیہ کا دعویٰ

عبادت گاہ کے مینار گرانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے: جماعت احمدیہ کا دعویٰ
جماعت احمدیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اڈہ تحصیل گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پولیس کی جانب سے احمدیوں کو ان کی عبادت گاہ کے مینار گرانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

اس سال کے آغاز سے احمدیوں کے خلاف تعصب کی لہر تیز ہو گئی ہے۔ احمدیوں کی عبادت گاہوں سے میناروں کو تباہ کرنا آئین کے آرٹیکل 20 اور سپریم کورٹ کے جیلانی (2014) کے فیصلے کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے حکم دیا گیا ہے۔
پولیس نے اس سے قبل وزیر آباد میں احمدیوں کی عبادت گاہوں سے مینار غیر قانونی طور پر گرائے تھے۔

جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے گزشتہ رات بغیر کسی قانونی جواز کے ان کی عبادت گاہ کے مینار منہدم کر دیئے۔

گزشتہ سال دسمبر میں جماعت احمدیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ گوجرانوالہ پولیس نے گوجرانوالہ کے علاقے باغبانپورہ میں واقع ان کی عبادت گاہ کے بیرونی دروازے پر بنے میناروں کو گرا دیا۔

پاکستان کی اقلیتی احمدی کمیونٹی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے جسے اکثر قانونی اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اسی مہینے کے آغاز میں ایک احمدی شخص پر ‘سید’ کو بطور اسم اول استعمال کرنے پر ملک کی احمدیہ مخصوص تعزیری دفعات کے تحت کراچی پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔ ایف آئی آر کی ایک کاپی کے مطابق ملزم ایک وکیل تھا اور عدالت میں دوسرے احمدیوں کی نمائندگی کر رہا تھا۔ اس شخص نے کیس کے سلسلے میں کچھ دستاویزات جمع کرائی تھیں۔ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دستاویزات میں اسلامی اصطلاحات شامل ہیں۔ اس کا نام ساتھ میں نمایاں تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کو  1974 میں پارلیمان نے غیر مسلم قرار دیا تھا اور بعد میں جنرل ضیا الحق کےدور میں آنے والے ایک نئے قانون امتناع قادیانیت آرڈیننس کے تحت ان پر مزید پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔