بلوچوں کا اسلام آباد داخلہ ممنوع، سڑکیں ناپو اور گھر جاؤ!

امی زندہ ہوتیں تو میں ان سے پوچھتا، اماں اس بچی کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں جو اسلام آباد کی ایک اجنبی شاہراہ پر خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہے، جس کے دل نے، دہشت کی دھاک سے پھٹ جانے والی دھڑکنیں شروع کر دی ہیں۔ کیا اس بچی کی ماں نے ناشتے پر کسی کو چائے پراٹھا نہیں کھلایا ہوگا؟

بلوچوں کا اسلام آباد داخلہ ممنوع، سڑکیں ناپو اور گھر جاؤ!

اسلام آباد کی ایک اجنبی شاہراہ کا منظر ہے۔ بلوچی روایتی لباس پہنے ایک بچی خوف اور دہشت سے تھر تھر کانپ رہی ہے۔ وہ 6، 7 سال کی لگتی ہے، رونا چاہتی ہے، رو نہیں پا رہی، پینے کے پانی کی ایک کھلی بوتل ہاتھ میں لئے ہوئے ہے۔ ہچکیاں لے رہی ہے، جس سے بوتل کے پانی میں لرزشیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس نے سر اور کان اپنے دوپٹہ سے نہیں ڈھانپے ہوئے جو دسمبر کی سردی سے بچنے کیلئے مائیں کراتی ہیں۔ بلوچستان کے کسی گرم علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ کمسن بچی ٹھنڈ سے بے پروا دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہیں دیکھ رہی ہے۔ جو نظارہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہے، اس پیش منظر میں نظر آنے والی دہشت نے اسے، جہاں وہ زمین پر بیٹھی ہوئی ہے، وہیں منجمد کر دیا ہے۔ انجانے اندیشوں سے اس بچی کا دل زور زور سے دھڑک رہا ہے، یہ تاثر ہمیں اس کی ہچکیوں سے ملتا ہے۔ گمان گزرتا ہے کہ، وہ اپنے کم سن ذہن میں، آگے پیش آنے والے کسی بڑے اندوہناک، ناخوشگوار حادثے اور ہولناک واقعہ کے تصورات سے لڑ رہی ہے۔

کیمرہ بچی کی آنکھوں سے ہوتا ہوا، دہشت کے سبب کا تعاقب کرتا ہے۔ چند گز کے فاصلے پر انسانی آوازیں سنائی دیتی ہیں، شور شرابہ ہے جو آوازوں پر حاوی ہے، لوگ کیا کہہ رہے ہیں، کچھ سنائی نہیں دیتا۔ رات کے اس وقت، اس سنسان شاہراہ پر کچھ ہوا ہو گا۔ اور اس بچی کا اس ہجوم میں کسی خاتون، کسی خاندان، کسی فرد سے کچھ تعلق ضرور دکھائی دیتا ہے اور، اس بچی کو ساتھ لے کر گھر سے نکلنے والی اس خاتون، بچی کو تحفظ فراہم کرنے والے اس خاندان، اس سرد اور اجنبی شاہراہ تک اس بچی کے ساتھ چلنے والے اس فرد کو کسی ناگہانی اور بڑی مصیبت نے گھیر لیا ہو گا۔

 چند ثانیوں کی اس ویڈیو کو لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایک دو دن کے دوران بار بار دیکھا ہو گا۔

مجھے اپنی ماں کی تلاش ہے جو گذشتہ سال انتقال کر گئیں۔ وہ اگر ملتی، میں ضرور ان سے پوچھتا، امی آپ جانتی تھیں، ہم بے کس ہیں ناں، اس لئے تمہیں بے کسی سے نفرت تھی؟ جب ہم سکول جاتے تھے، صبح کے ناشتے پر کچرا چننے والے تین چار افغان بچے ہمارے ساتھ روز ناشتہ کیا کرتے تھے، امی ہر بچے کو ایک پیالہ گرم چائے، ایک تازہ پراٹھا دیتی تھیں۔ آج میں ان کا خیال رکھوں گی، کل کوئی اور تمہارا خیال رکھے گا، وہ ہمیں بتایا کرتی تھیں۔

امی زندہ ہوتیں، میں ان سے پوچھتا، اماں اس بچی کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں جو اسلام آباد کی ایک اجنبی شاہراہ پر خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہے، جس کے دل نے، دہشت کی دھاک سے پھٹ جانے والی دھڑکنیں شروع کر دی ہیں۔ کیا اس بچی کی ماں نے، ناشتے پر کسی کو چائے پراٹھا نہیں کھلایا ہوگا؟ کیا اس بچی کی ماں، اس کے خاندان، اس کے بھائی پر تشدد کرنے والے اہلکاروں کی ماؤں نے ہم سے زیادہ لوگوں کو چائے پراٹھا کھلایا ہو گا؟ کہ سب ان کا ساتھ دے رہے ہیں، سب ان کا خیال رکھ رہے ہیں، سب ان کے جھوٹ کو سچ مان رہے ہیں۔ کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے، ہم میں، صرف ہم ہی ہیں جو ایک دوسرے کو حسب نسب سے جانتے ہیں، ایک دوسرے کے درد کو پہچانتے ہیں۔ انسانیت کے نام پر بھی، ہم پر کوئی ترس نہیں کھا رہا، کوئی مارنے والا ہمیں مارتے ہوئے رحم کا شکار بھی نہیں ہو رہا، انسانیت کا جو رشتہ ہے، وہ رشتہ ہم سے کوئی بھی قائم نہیں کر رہا، کیوں؟

امی تمہیں خوشی کے وہ مواقع یاد ہیں، جب محلے میں کسی غیر بلوچ کی شادی ہوتی، ان کی محفلوں میں، بڑے بڑے لاؤڈ سپیکر لگے ہوتے، جن سے آنے والی آوازیں لوگوں کا دھیان کھینچتیں لیکن محفل میں گنتی کے چند لوگ دکھائی دیتے تھے، جو ان ملازمت پیشہ، سفید پوش لوگوں کے رشتہ دار یا واقف کار ہوتے۔ ان کی زبان بولنے والے ہمارے اردگرد نہیں رہتے تھے، خوشی اور جشن کے موقع پر کم لوگوں کی شرکت ہمیں اداس کر دیتی تھی اور ہم شادی کا حصہ بن جایا کرتے تھے، کبھی کسی کو بریانی پیش کرتے، کبھی دلہن کے بھائی بن جاتے اور دُلہا کو خوش آمدید کہتے۔

سوگواری کے دن جب آتے، ہم ان کے دکھ ، درد کو آپس میں بانٹ لیتے تھے کہ سوگ کا غم ان پر بھاری نہ پڑے۔ خوشی اور سوگواری کے دن ہر ایک کے حصے میں آتے ہیں۔ انسانوں نے زبان، رنگ، نسل، جنس، مذہب، قومیت کے بغیر اچھے اور برے دنوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔

بلوچ اُس وقت پد گیر، قدم کے نشانوں سے سراغ لگانے والے، کی خدمات لیتے ہیں، جب ان کو کسی نامعلوم چور کو پکڑنا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں، امی آپ جانتی ہیں، ان دنوں بالغ بچوں کی چوری عام ہو چکی ہے، بلکہ یہ کسی وبا کی طرح پھیل چکی ہے، کوئی بھی اس کا شکار بن سکتا ہے۔ بچوں کو چوری کرنے کی واردات جو لوگ کرتے ہیں، وہ نامعلوم لوگ ہیں لیکن بچہ دُزدی کی ان وارداتوں نے اب قابلِ تشویش بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔ بلوچ عورتیں، اپنے چھوٹے، بڑے، بالغ و نابالغ بچوں کو لے کر گذشتہ دنوں اسلام آباد کیلئے نکلی تھیں کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ قدموں کے نشان سے چوروں کو پکڑنے والے اچھے سراغ رساں وہیں پائے جاتے ہیں۔

وہ لوگ اسلام آباد بہت دیر سے پہنچے، رات ہو چکی تھی۔ سڑکوں پر ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ گھر اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اماں، کوئی بھی ان کے استقبال کو نہیں آیا، کیا بلوچستان کی ماؤں نے، پنجاب سے تعلق رکھنے والے بے کس بچوں کو چائے پراٹھا نہیں کھلایا تھا؟

رزاق سربازی کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں۔