رانی راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے بدنما کمرے میں بیٹھے کپڑے استری کر رہی تھی۔ جیسے ہی ان کی نظر کیمرے پر پڑی، اس نے اپنا چہرہ قریب پڑی ایک چادر سے چھپا لیا۔ شائد اسے لگا کہ کیمرہ پہلے سے ریکارڈنگ پر ہے مگر تسلی کے بعد وہ نارمل ہو گئی۔ کچھ دن پہلے غیر ملکی میڈیا کے لئے کام کرنے والے صحافی کے ساتھ راولپنڈی کے ان گھروں میں جانے کا موقع ملا تھا جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی خواتین جسم فروشی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
رانی کا تعلق چکوال کے ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ہے اور اس کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ مقابلے کا امتحان دے کر بیوروکریسی کا حصہ بن جائے مگر رانی کا دل و دماغ درس و تدریس میں رچ بس گیا تھا۔ اس لئے اس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف آرٹس میں داخلہ لیا۔
رانی کہتی ہے کہ کالج کچھ میٹرز کے فاصلے پر تھا اس لئے روزانہ پیدل جاتی تھی۔ یہ گرمیوں کے شروع کا مہینہ تھا جب کالج کے ساتھ کھڑے ایک خوبصورت نوجوان پر نظر پڑی اور دل و دماغ نے پہلی ہی نظر میں اس کو قبول کر لیا۔ پہلی بار اس کو دیکھنے کے بعد نہ تو اس رات پڑھائی میں دلچسپی لی اور نہ ہی ایک پل کے لئے نیند اور سکون محسوس ہوا۔ پھر جیسے ہی میں گھر سے نکلتی، آنکھوں کو اس چہرے کی تلاش رہتی تھی کہ وہ کہاں ملے گا اور پھر آہستہ آہستہ اس سے ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ میں تو پہلے دن سے ہی اس کی ہو چکی تھی۔
گھر والے مجھ سے پوچھتے تھے کہ کچھ ہے جو آپ پریشان رہتی ہو اور کھانا بھی صحیح طریقے سے نہیں کھاتی مگر میں کب ان کو بتانے والی تھی کہ میں محبت کے مرض میں مبتلا ہو چکی ہوں۔ زندگی کا پہیہ گھومتا گیا اور ہم نے آج سے پورے پانچ سال پہلے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیا۔
اپریل 2015 کی ایک صبح ہم چکوال سے راولپنڈی آئے اور یہاں سے کراچی چلے گئے۔ ہم نے وہاں ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ میرے خوابوں کا شہزادہ دن بھر سوتا رہتا تھا اور راتوں کو مجھے اکیلے چھوڑ کر باہر چلا جاتا تھا۔ کچھ دن بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ڈرگز کا استعمال کرتا ہے۔ جب میں منع کرتی تھی تو تشدد پر اُتر آتا مگر پیار میں تشدد بھی قبول کیا۔ آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ ہیروئین کا بھی عادی ہو چکا ہے۔
یہ کراچی میں دسمبر کا مہینہ تھا اور مجھے شدید بخار تھا کہ اس دوران میرا شہزادہ دو اور دوستوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اور یہ مجھے بہت عجیب لگا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میرے شہزادے نے مجھے کہا کہ ان دوستوں نے مجھے آج نشہ فراہم کیا ہے، آپ ان کو خوش کر دو۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ میرے پسینے نکلنا شروع ہو گئے کیونکہ میں نے اس کے علاوہ تو کسی کو قبول نہیں کیا تھا اور ان کے دونوں دوستوں نے رات بھر مجھے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ کمرے کے ایک کونے میں پڑا سوتا رہا۔
اگلی صبح میں اُٹھی تو ایسا لگ رہا تھا کہ میرے بدن کے اندر کسی نے چھریاں ماری ہوں اور میرے شہزادے سے پہلی بار مجھے گھن اور نفرت ہونے لگی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے مجھے کراچی میں ایک آنٹی کے حوالے کیا اور ان سے ایک لاکھ روپے لے لیے۔ بس میرے خوبصورت جسم کا سودا عمر بھر کے لئے ایک لاکھ روپے میں ہوا۔
ہم رات کو تیار ہو کر ہوٹلوں پر جاتے تھے یا پھر آنٹی کے گھر پر گاہک آ جاتے تھے۔ کچھ دن رہنے کے بعد اس آنٹی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اس کے ساتھ کیوں بھاگ آئیں تو میں نے جواب دیا کہ یہ خوبصورت تھے اور مجھے ان سے محبت ہو گئی، جس پر آنٹی نے مجھے قہقہہ لگا کر جواب دیا کہ یہ خوبصورت نوجوان اس سے پہلے بھی دو شادیاں کر کے لڑکیاں میرے ہاتھوں فروخت کر چکا ہے۔
کچھ دنوں کے بعد آنٹی نے مجھے بتایا کہ تمہیں اسلام آباد جانا پڑے گا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ ایک اور انٹی کے ساتھ میں نے تیرا سودا کیا ہے۔ تم جوان اور خوبصورت ہو اور اسلام آباد کی مارکیٹ بہت بڑی ہے۔ وہاں تم بہت کماؤ گی۔ کچھ دنوں کے بعد آنٹی مجھے اسلام آباد کی ایک آنٹی کے پاس لے آئی۔ وہ بڑا شاندار مکان تھا اور ہمارے رات کا ریٹ دس سے پندرہ ہزار روپے لگتا تھا۔
رانی نے کہا کہ اسی فیصد گاہک شراب کے عادی تھے اور وہ سیکس کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ رانی نے کہا کہ اس آنٹی کے ساتھ دو سال گزارنے کے بعد مجھے راولپنڈی کے ایک دلال کے حوالے کیا گیا کیونکہ اسلام آباد والی آنٹی نے کہا کہ یہاں پر لوگوں کی ڈیمانڈ کم عمر لڑکیوں کی ہے اور اب تم ہم پر بوجھ ہو۔
ڈھلتی عمر کے ساتھ جسم بیچنے کے لئے میرا ریٹ ایک ہزار روپے پر آ گیا اور اب گھر پر بھی کوئی قبول نہیں کرتا۔ بس اسلام آباد کی سڑکوں پر گاہک کے انتظار میں کھڑی ہوتی ہوں مگر گاہک آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں کیونکہ میرا جسم بہت کمزور ہو گیا ہے۔
رانی سے جب پوچھا گیا کہ کوئی ایسا واقع بتاؤ جو آپ کی زندگی میں بہت دلخراش ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ محبت میں دھوکہ کھانے کے بعد دوسرا دردناک لمحہ وہی ہوتا ہے جب گاڑی میں سیکس کرنے کے بعد لوگ میرے منہ پر پیسے پھینک کر کہتے ہیں دفع ہو جا، ر*** اُتر گاڑی سے۔
رانی نے کہا کہ ایک دن اسلام آباد کے کشمیر ہائی وے سے ایک چالیس سالہ شخص نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اس کے ساتھ ایک ہزار پر ڈیل پکی ہو گئی مگر سیکس کرنے بعد جب میں نے اس سے رقم مانگی تو اس نے اپنا پستول دکھا کر مجھے گاڑی سے اُترنے کو کہا۔ میرے مسلسل انکار پر اس نے میرے منہ پر مکا مارا جس سے میرے سامنے کے تین دانت نکل گئے اور میں درد سے بے ہوش ہو گئی۔
بس اتنا پتا چلا کہ اس نے لات مار کر مجھے اپنے گاڑی سے نیچے گرا دیا تھا۔
رانی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ایسی عورت کو کوئی سینے سے نہیں لگاتا۔ بس جسم ٹھنڈا ہونے کے بعد گالی دے کر دفع ہونے کو کہتا ہے۔