Get Alerts

تربت میں تین روزہ عطاء شاد ادبی فیسٹیول میں 35 لاکھ کی کتابیں فروخت ہوئیں

تربت میں تین روزہ عطاء شاد ادبی فیسٹیول میں 35 لاکھ کی کتابیں فروخت ہوئیں
تربت میں اردو اور بلوچی زبان کے جدید آہنگ شاعر عطاء شاد کی برسی پر اس سال بلوچستان اکیڈمی تربت کی طرف سے 13 فروری کو تین روزہ ادبی فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس کا اختتام 15 فروری کو رات 11 بجے محفل مشاعرہ کے ساتھ ہوا۔

تربت میں یہ پہلا ادبی فیسٹیول تھا جو مسلسل تین دنوں تک جاری رہا۔ اس فیسٹیول میں کئی حیران کن واقعات سامنے آئے جن میں تین دنوں میں 35 لاکھ روپے کی ریکارڈ کتابیں فروخت ہونے کے علاوہ تین دنون میں لوگوں کے مسلسل رش اور رات تک خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے انہماک سے سیشن میں بیٹھ کر مقررین کو سننا اور کتابوں سے لگاؤ اپنے طور ایک بڑی مثال ہے۔ جب آخری روز رات 11 بجے پروگرام محفل مشاعرہ کے ساتھ اختتام کو پہنچا تب بھی وہاں 2000 سامعین میں سے کم و بیش 50 سے زیادہ نوجوان لڑکیاں دن کو سٹالز سے خریدی گئی کتابوں کے ساتھ موجود تھیں۔

عطاء شاد ادبی فیسٹیول تربت میں 22 پبلشرز اپنی کتابوں کے ساتھ آئے تھے جن میں معروف اشاعتی ادارہ بدلتی دنیا، فکشن ہاؤس اور علم و ادب پبلشرز شامل ہیں جبکہ کراچی، کوئٹہ، گوادر، پشکان اور کیچ سے لوکل پبلشرز نے بھی کتابوں کے سٹالز لگائے۔

بلوچستان اکیڈمی تربت نے عطاء شاد کو ایک بڑے ایونٹ کی صورت میں کیسے یاد کیا؟ اس کا سبب بلوچستان اکیڈمی تربت کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر غفور شاد یوں بتاتے ہیں؛

'فیسٹیول کے لیے ایک مصمم ارادہ میرے ذہن میں تھا۔ ہم نے سوچا کہ یہ کرنا ہے اور ہر حال میں کرنا ہے۔ میں نے یہ آئیڈیا دوستوں سے شیئر کیا تو سب اس پر متفق ہوئے۔ اس کے بعد ہم نے مشاورت کی اور تیاریوں میں لگ گئے۔ ہمیں لمحہ بھر کو بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہم پروگرام نہیں کر سکتے البتہ فنانشل سپورٹ ملنا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ اگر بروقت ہمیں یہ سپورٹ نہ ملتی تو ہو سکتا ہے اس نوعیت کا بڑا ایونٹ کرنے میں کامیاب نہ ہوتے لیکن جب ہم نے کام شروع کیا تو لوگ آتے گئے، خیالات ملتے گئے، سپورٹ ملنی شروع ہوئی اور ہم ایک بہت بڑے ناقابل یقین فیسٹیول کے انعقاد میں کامیاب ہوئے۔ جب فیسٹیول شروع ہوا تو پہلے دن سے اندازہ ہوا کہ ہم ایک ایسے میگا ایونٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کا تصور پورے بلوچستان میں نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل عطاء شاد ایک ایسا نام ہے جو لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ عطاء شاد بلوچی ادب ہی کی نہیں، کیچ کی بھی نہیں بلکہ پورے بلوچستان کی پہچان ہے۔'

تربت میں عطاء شاد کے نام پر لٹریری فیسٹیول یہاں کی ادبی تاریخ کا پہلا بڑا ایونٹ تھا۔ اس میں ماہر معاشیات قیصر بنگالی کے سوا تمام اہم مہمان مقررین کا تعلق بلوچی ادب اور بلوچ سیاست سے تھا جن میں معروف اشتراکی دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری، کوہ سلیمان سے چاچا اللہ بشک بزدار، ڈاکٹر واحد بخش بزدار، سعید تبسم مزاری اور کراچی سے آئے اردو شاعر وحید نور نمایاں تھے۔

عطاء شاد ادبی فیسٹیول بلوچی ادب اور کیچ و مکران کی سماجی ہئیت میں علمی حوالے سے کس طرح کے اثرات کا محرک ثابت ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر شاہ محمد مری کے مطابق؛ 'انسانی اجتماع، یکجاہی اور آپس میں مختلف موضوعات پر ڈسکشن ایک گھنٹہ کے لیے ہی سہی، زبردست ہے۔ یہاں تین دنوں میں ایسا ہوا۔ یہ بات ادب اور خصوصاً بلوچی ادب کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ عطاء شاد جیسے بلند پایہ شاعر کے نام پر ایسے ایونٹ کا انعقاد مثالی ہے۔ یہاں آمد سے قبل مکران کے علم و ادب سے اشتیاق کے بارے میں سنا تھا، جب قریب آئے تو یہاں علم و ادب اور کتاب دوستی اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اس کی شدت کا مشاہدہ کیا۔ تین دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آئے، مقررین کو سنا، سوال کیے، ہم نے آپس میں خیالات، افکار اور لہجوں کا لین دین کیا، مختلف ریجن سے آئے بلوچ شعراء کا آپس میں تعارف ہوا، ہم نے انتہائی فائدہ مند چیزیں سمیٹیں اور خوش گوار یادیں لے کر واپس جا رہے ہیں۔ یہ فیسٹیول بلوچی ادب کی ترقی کا باعث بنے گا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسے فیسٹیول ہمیشہ ہوتے رہیں۔'

عام لوگوں کی نظر سے اگر دیکھا جائے تو تربت کیچ ہمیشہ ادبی حوالے سے بلوچستان میں ایک نمایاں مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس کا سب سے معتبر حوالہ خود عطاء شاد ہیں۔ تین روزہ عطاء شاد ادبی فیسٹیول نے بلوچستانی ادب کو سماجی طور پر قریب لانے میں ایک پل کا کردار ادا کیا ہے۔

کیچ میں کتابوں سے عشق کی ایک الگ کہانی ہے۔ جب کچھ عرصہ قبل تربت میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے پڑے، تعلیمی اداروں کے ہاسٹل بند کر کے وہاں سے علمی و ادبی لٹریچر کو ملک دشمن کہا گیا، ایک طویل عرصے کے بعد فیسٹیول کا انعقاد اور ریکارڈ تعداد میں کتابوں کی فروخت بلوچ نوجوانوں کے کتابوں کے ساتھ اس عشق کا اظہار تھی۔

'پاکستان میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے کیچ سے ہیں۔' معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی سے منسوب اس بات کی تصدیق تو نہیں کی جا سکتی لیکن تربت میں تین روزہ فیسٹیول میں اگر 35 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوں تو یقیناً یہ حیران کن بات ہے۔ پاکستان کے باقی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک عام ریڈر اور تربت کے ریڈر میں کیا فرق ہے؟

'بدلتی دنیا' پبلشنگ ادارے کے جنرل مینجر جاوید حسن اس کا ایک خوبصورت نقشہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں؛

'پاکستان کا عام قاری سٹال یا دکان پر آ کر اپنی پسند کی کتابیں ٹٹول کر لیتا ہے مگر تربت کے قاری کو پہلے سے معلوم ہے اسے کیا اور کس کو پڑھنا ہے۔ وہ کتابیں ٹٹول کر وقت نہیں ضائع کرتا بلکہ اپنا انتخاب بتا کر کتاب طلب کرتا ہے، یہ گہرا فرق ہے۔' جاوید حسن ایک اور فرق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تربت میں تین دنوں میں ایک بھی ریڈر نے رجعتی نوعیت کی کسی کتاب کے متعلق نہیں پوچھا، ان کے پڑھنے کا دائرہ ادب، سماج، تاریخ یا مذاہب کے درمیان تقابلی جائزہ جیسی کتابیں ہیں۔ وہ فکشن پڑھتا ہے، اسے جدید ادب سے شغف ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ کس ادیب یا رائٹر نے کیا لکھا ہے۔ جاوید حسن کے بقول وہ حال ہی میں کراچی میں ایکسپو سے حیدر آباد اور وہاں سے تربت آئے ہیں۔ وہ کراچی ایکسپو کے تجربات سے بے حد مایوس دکھائی دیے۔ ان کے مطابق کراچی کا مزاج رجعتی بنتا جا رہا ہے۔ کراچی ایکسپو میں جان بوجھ کر ڈاکٹر اسرار احمد اور طاہر القادری کو فوقیت دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ جب حیدر آباد گئے تو نوجوان نسل کا رویہ ہمارے لیے حوصلہ کن تھا۔ پہلے لگتا تھا کہ یوتھ عمران خان سے دلچسپی رکھتی ہے لیکن وہاں جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ نوجوان نسل اپنی راہیں الگ تلاش کرنا چاہتی ہے۔ مگر تربت آ کر بہت الگ محسوس ہوا۔ یہاں کا نوجوان سب سے الگ ہے۔ تربت کے یوتھ کا رویہ پاکستانی یوتھ سے بہت مختلف اور منفرد ہے۔ ان کے سوچنے اور پرکھنے کا اپنا الگ انداز ہے۔

عطاء شاد کے نام سے منسوب ادبی فیسٹیول میں روجھان مزاری سے شریک ہوئے بلوچی زبان کے شاعر سعید تبسم مزاری نے اپنا تجربہ یوں بتایا؛ 'روجھان جمالی سے جب یہاں آ رہا تھا تو قطعی طور پر مجھے یہ لگ نہیں رہا تھا کہ عطاء شاد ادبی فیسٹیول اس قدر منظم اور اتنے بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک یہ بلوچ ادبا کے شعور کا سفر ہے اور اس سفر میں عام بلوچ اس کا ہمسفر ہے۔ توقع ہے کہ عطاء شاد ادبی فیسٹیول کا یہ سفر بلوچستان کے سماجی فاصلوں کو مٹانے کا سبب بنے گا۔'

تین دنوں میں عطاء شاد کی شخصیت اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر دو سے زیادہ سیشن رکھے گئے تھے جن میں معروف ادیبوں نے خیال آرائی کی۔ اس کے ساتھ بلوچی زبان و سیاست، بلوچستان کی سماجی اور معاشی اہمیت، سماجی ترقی میں عورت کا کردار، بلوچی ادب میں ترجمہ کی اہمیت اور بلوچ ماخذ (اوریجن) جیسی اہمیت کے حامل موضوعات پر پینل ڈسکشنز (گروہی مباحث) رکھے گئے تھے جن میں قیصر بنگالی، ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر مالک بلوچ، ڈاکٹر واحد بخش بزدار، ڈاکٹر فاروق بلوچ اور چچا اللہ بشک بزدار جیسی نمایاں شخصیات نے حصہ لیا۔

فیسٹیول کے دوران 5 کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی جن میں سے دو تراجم پروفیسر عقیل بلوچ کی انگریزی سے بلوچی زبان میں کیے گئے تھے۔ 'پہ زبان ءَ یک کتابے' یعنی زبان کے لیے ایک کتاب اور فضل بلوچ کی 'منتخب کہانیاں' بلوچی افسانوں کا اردو ترجمہ قابل ذکر ہیں۔

مجموعی طور پر ہر سیشن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شریک تھے جن میں عورتیں اور نوجوان لڑکیوں کی متاثر کن تعداد موجود تھی۔

تربت یونیورسٹی کی آئی بی ایل سی (بلوچی ڈیپارٹمنٹ) سے تعلق رکھنے والی طالبہ شاری بلوچ کے مطابق تربت میں عطاء شاد ادبی فیسٹیول کے انعقاد سے نہ صرف طلبہ و طالبات اور ادب سے تعلق رکھنے والوں کو عطاء شناسی کا موقع ملا بلکہ عورتوں کی اس میں شرکت سماج کے انقلاب کی مظہر ہے۔ تین دنوں میں عورتوں کا رش مسلسل بڑھتا رہا اور جہاں نوجوان لڑکے کتابوں کے سٹالز میں دیکھے گئے، لڑکیاں بھی کتاب خریدنے میں پیش پیش رہیں۔ شاری بلوچ سمجھتی ہیں کہ تربت علم و ادب کی سرزمین ہے اور ہر سال یہاں ادبی فیسٹیول کی ضرورت ہے تاکہ سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی در آئے اور علم کا شوق مزید بڑھے۔

تین روزہ فیسٹیول کا اختتام 15 فروری کی رات محفل مشاعرہ سے ہوا۔ اس سے قبل دو دنوں میں رات کو بلوچی کلاسیکل میوزک اور دوسری موسیقی کی نشستیں ہوئیں جن میں شرکاء کی تعداد قابل ذکر رہی لیکن فیسٹیول انتظامیہ کے مطابق آخری شب مشاعرہ میں کم و بیش دو ہزار افراد موجود تھے۔ پندرہ سو کرسیاں لگائی گئی تھیں، جگہ نہ ہونے کے باعث درجنوں نوجوان مختلف کونوں میں کھڑے مشاعرے سے لطف اندوز ہوئے جبکہ کئی نوجوان سامنے سٹیج کے نیچے بیٹھے تھے۔ رات گیارہ بجے جب مشاعرہ ختم ہوا تو نوجوان عورتوں کی کافی تعداد کتابیں بغل میں لیے کسی خوف، ڈر اور جھجک کے بغیر واپس روانہ ہوئیں۔ تب مردوں نے دونوں اطراف کھڑے ہو کر وقار اور شان کے ساتھ ان کے لیے راستہ بنایا۔ یہ اس فیسٹیول کا سب سے خوبصورت لمحہ تھا۔