الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی سے متعلق شفاف تحقیقات یقینی بنائے

اگر الزامات لگانے والوں کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد جن جن حلقوں میں دھاندلی کے شواہد ملتے ہیں ان میں دوبارہ انتخابات کا انتظام کیا جائے اور ملک کے نظام کو چلنے دیا جائے۔ اگر بروقت ایکشن نہ لیا گیا تو ملکی صورت حال دن بہ دن مزید تشویش ناک ہوتی چلی جائے گی۔

الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی سے متعلق شفاف تحقیقات یقینی بنائے

یوں تو انتخابات کو انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ بنانے کی کوششوں کا آغاز ہو گیا تھا جس کے بارے میں اپنی تحریروں میں اظہار بھی کرتا رہا ہوں اور جس سیاسی منظرنامے کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اب وہ دھاندلی کے الزامات کی صورت میں حکومت کی تشکیل کے سامنے ایک چیلنج بن کر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ جن انکشافات کا اظہار کمشنر راولپنڈی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے اس کے بارے بھی کئی ملی جلی خبریں سامنے آ رہی ہیں لیکن جب تک ان کی انکوائری رپورٹ نہیں آتی انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالوں کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کے دھاندلی کے الزامات کا مؤقف اکثریتی سیاسی جماعتوں کا بھی سامنے آ رہا ہے جس پر احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جو ملک کو پھر سے سیاسی عدم استحکام کی صورت حال سے دوچار کرتا جا رہا ہے اور اس کے نا صرف امن عامہ بلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔

کمشنر کے معاملے پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے جو خوش آئند ہے لیکن بہتر ہو گا کہ اب اس معاملے پر جہاں جہاں بھی ٹھوس شواہد کے ساتھ شکایات ہیں الیکشن کمیشن یا وفاقی حکومت تحقیقاتی عمل کی شروعات کرے۔ اچھی شہرت اور کارکردگی کے حامل افسران جن پر سب سیاسی جماعتوں کو اتفاق ہو، انہیں انکوائری کمیشن کا حصہ بنایا جائے جو غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ ان تمام الزامات کی انکوائری کرے جو مختلف امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ یہ جھوٹا پراپیگنڈہ ہے جس طرح سے انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے تو انکوائری شروع کر کے ان سے ثبوت طلب کیے جائیں تا کہ یہ سیاسی بیانیوں اور اداروں پر الزام تراشیوں والا سلسلہ ختم ہو۔ الزامات کی تحقیقات کے بغیر ان سے جان چھوٹنے والی نہیں، وگرنہ یہ سلسلہ یوں ہی پانچ سال تک چلتا رہے گا۔

اگر الزامات لگانے والوں کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد جن جن حلقوں میں دھاندلی کے شواہد ملتے ہیں ان میں دوبارہ انتخابات کا انتظام کیا جائے اور ملک کے نظام کو چلنے دیا جائے۔ اگر بروقت ایکشن نہ لیا گیا تو ملکی صورت حال دن بہ دن مزید تشویش ناک ہوتی چلی جائے گی۔

اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کو بھی سنجیدگی اور پختہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہیے اور اگر ان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو پھر متعلقہ فورمز کے سامنے رکھے جائیں چہ جائیکہ الزامات کی آڑ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے ملک کے اندر افراتفری کا ماحول پیدا کر کے ترقیاتی، فلاحی اور معاشی نظام کو مفلوج کر دیا جائے۔

انتخابات کے بعد تو سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی حکمت عملیاں بالکل بھی زیب نہیں دیتیں۔ عوام اپنے نمائندوں کا چناؤ کر چکے ہیں۔ تمام جماعتوں کے جتنے ممبران جیتے ہیں ان پر تو کم از کم خود ان جماعتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ آئینی حلف اٹھائیں اور موجودہ کامیاب ممبران اسمبلی کے تناسب سے جس کی بھی حکومت بنتی ہے اسے تشکیل دیں اور پارلیمان خود انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن قائم کر سکتا ہے۔ یہ چوک چوراہے کی سیاست کے پچھلے 10 سالوں سے ابھی ان سیاست دانوں کے شوق پورے نہیں ہوئے۔ ان سے سیاسی جماعتوں یا ملک کو حاصل کیا ہوا ہے سوائے معاشی، سیاسی اور معاشرتی تباہی کے؟ جنہوں نے اس طرح کی سیاست پر امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں ان کو ابھی تک اس سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ نہیں ہوا کہ پھر سے وہی روش اپنا لی ہے۔

انتخابات کے انعقاد تک تو ان احتجاجوں کی سمجھ آتی ہے لیکں اسمبلیوں کے وجود میں آ جانے کے بعد تو سیاست دانون کو اپنے تمام معاملات کا حل پارلیمان میں تلاش کرنا چاہیے اور عوام کو ان کی نگرانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ عوامی فلاح و بہبود، آئین و قانون کی پاسداری اور اصولی سیاست اور جمہوری اقدار سے ہٹ کر کوئی کردار ادا کرتے ہیں توعوام کو ان کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اس کے لیے عوام کو نکلنا بھی پڑے تو ان کا جائز عمل، قومی فریضہ اور آئینی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ پی ٹی آئی کے منتخب ممبران کا انہوں نے جماعتی مینڈیٹ کے خلاف استعمال ہونے پر ان کا محاسبہ کیا ہے، وہ ان کا جائز حق تھا اور اس سے سیاسی شعور اور جمہوری اقدار کی پاسداری کی نشاندہی ہوتی ہے جس سے سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا قلعہ قمع ہو گا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ان کی نمائندگی پارلیمان میں اپنا کردار ہی ادا نہ کر رہی ہو تو ان دھرنوں اور احتجاجوں کے مطلوبہ ثمرات ملنا ممکن نہیں ہوتے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بلکہ ایسی سرگرمیاں عوام، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر ان کی پارلیمانی ذمہ داریوں سے لا علمی، آئینی و قانونی، سیاسی اصولوں اور جمہوری اقدار والی تربیت اور صلاحیتوں کی کمی کی نشاندہی کی طرف اشارہ ہے۔ سیاست دان خواہ ان کا کسی بھی جماعت سے تعلق ہو ان کا جتنا بھی دوسرے ممبران یا جماعت سے سیاسی اختلاف ہو مگر قومی ایشوز پر ان کا اتفاق اور اتحاد ان کے سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات کی پہچان ہے جو ان کے بحیثیت ایک سیاست دان کے اخلاقی، آئینی و قومی ذمہ داری بنتی ہے وہ اپنے آپ کو نظم و ضبط کا پابند بنائے اور یہی رویہ قوموں کے جمہوریت سے فائدہ مند ہونے کا ضامن ہوتا ہے۔

اداروں کی اگر سیاست میں دخل اندازی کا کسی سیاست دان کو شکوہ، خدشہ یا تحفظ ہے تو پھر اس کی ان کی سوچ و عمل میں جھلک بھی تو ہونی چاہیے تا کہ اس کی بحیثیت ایک سیاست دان شناخت اور شخصیت پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے اور اگر کوئی بھی سیاست دان یا سیاسی جماعت کسی بھی ایسی دخل اندازی کے عمل کا آلہ کار بنے یا سہولت کاری سے مستفید ہو تو وہ سیاست دان اور سیاسی جماعت بھی سیاست اور جمہوریت کے نام پر دھبہ ہے جس کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

کوئی بھی ہو اگر آج وہ ماضی کے ہی ایسے واقعات پر استدلال کرتے ہوئے حال میں خدشات یا الزامات کی نشاندہی کرتا ہے تو جن پر وہ استدلال کر رہا ہے ان واقعات میں ثابت شدہ جرائم پر اگر وہ خود ملوث تھا تو کیا اس نے پہلے قوم سے اپنے جرائم کی معافی مانگ کر آئندہ دور رہنے کا اعادہ کیا ہے؟ اور اگر نہیں کیا تو اس کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھائے؟

آج جو 1970 کی بات کرتے ہیں ان کو 2018 یا کئی دوسرے انتخابات نظر نہیں آتے۔ کیا ان سابقہ یا 2018 میں مستفید ہونے والوں نے شرمندگی کا کوئی اظہار کیا ہے یا ان کا طرز سیاست پہلے سے بدلا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہمیں دعوؤں اور دوسروں پر الزامات لگانے سے پہلے اپنے سوچ و عمل میں تلاش کرنا ہے۔

جس طرح سے کل تحریک انصاف نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں عالمی میڈیا کانفرنس میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے عالمی برادری سے مداخلت اور دباؤ کی درخواست کی ہے اس کی منطق میری تو سمجھ سے باہر ہے، سوائے اس کے کہ ریاست اور اداروں کی ساکھ بارے منفی تاثرات مرتب کر کے قومی تشخص کو تباہ کر دیا جائے۔ پہلے بھی اس طرح کے حربوں نے ہی عالمی سطح پر سفارتی اور تجارتی تعلقات کو خراب کر کے ملک کو مسائل سے دوچار کیا ہے۔ اگر سیاست دان اپنے اندر اتفاق پیدا کر کے اپنے مسائل کا حل خود پارلیمان جس کی بالادستی کا آئین ضامن ہے، سے نہیں ڈھونڈھ سکتے تو باہر سے ان کی کوئی کیا مدد کرے گا۔

سیاسی جماعتوں کو اگر پارلیمان میں پہنچنے سے پہلے تک کوئی حکمت عملی اپنانی ہے تو بھی ان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر آئینی و قانونی طریقہ کار کو اپنائیں جو الیکشن کمیشن، اس کے بعد الیکشن ٹربیونلز اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ پہلے بھی سپریم کورٹ نے ہی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا تھا جب ہر طرف سے تعطل کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

جیسا کہ ایک شہری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی مگر آج وہ معلوم نہیں کن وجوہات کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوا جس بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے اپنی درخواست واپس لینے کی بھی کوشش کی ہے۔ آج عدالت نے اس کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے پر ناراضگی کا بھی اظہار کیا ہے۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی تحقیقاتی کمیشن بنا دیا جائے گا تو کئی ایسے الزامات جن کے کوئی شواہد موجود نہیں اور محض سیاسی بیانوں کی فیکٹریوں کے طور پر سیاسی مقاصد کے لئے آئینی اداروں کو بدنام کرنے کا سلسلہ بھی کافی حد تک رک جائے گا۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے لوگوں کو جو بے بنیاد الزام لگاتے ہیں اور اس سے نا صرف اداروں کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوش کرتے ہیں بلکہ مختلف اتھارٹیز اور عدالتوں کا وقت اور قومی پیسہ بھی ضائع کرتے ہیں ان کو جرمانے اور سزائیں بھی دی جانی چاہئیں تا کہ سیاسی ثقافت سے اس طرح کے جھوٹے بیانیوں والا رجحان ختم کیا جا سکے۔

سیاست دانوں کی طرف سے اس طرح سے احتجاج، ریلیوں اور دھرنوں کی حکمت عملی میری سمجھ سے باہر ہے جن میں آئینی و قانونی پہلوؤں اور پارلیمانی طرز سیاست کی ترجیح شامل نہ ہو۔ اسے نا پختہ اور غیر سنجیدہ سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔