صدارتی نظام کی بحث کے پیچھے کون ہے، بچہ بچہ جانتا ہے

صدارتی نظام کی بحث کے پیچھے کون ہے، بچہ بچہ جانتا ہے
سب کچھ پہلے سے پتہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔

لیکن پھر بھی ہم وہیں آ گئے ہیں، اسی ڈگر پر، اور حیران کوئی بھی نہیں۔ ایک بار پھر گھڑی کے اندر سوئیوں کے مخصوص مدار میں گھومنے کی طرح صدارتی نظام لگا کر پاکستان کو بدلنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کوئی تھوڑا سا بھی قابلِ ذکر شخص ریکارڈ پر نام تو نہیں لے گا لیکن یہ سب کون کروا رہا ہے، یہ کسی کے لئے بھی راز نہیں۔ ذرا سوشل میڈیا پر لوگوں کی باتیں پڑھیں، آپ پر واضح ہو جائے گا کہ لوگوں کے خیال میں اس مہم کے پیچھے وہ عقلمند کون ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس کی ذمہ داری لینے سے انکار کر سکتے ہیں۔

یہ سب پہلے بھی کہیں سن رکھا ہے؟ سنا ہونا چاہیے۔ ہم پہلے بھی اس راہ پر چل کر دیکھ چکے ہیں۔ بلکہ پچھلی سات دہائیوں کا بیشتر حصہ اسی راہ پر چلے ہیں۔ صدارتی یہ، پارلیمانی وہ، وغیرہ وغیرہ۔ پہلے بھی ہو چکا ہے، ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ آج پاکستان میں گورننس کا برا حال اس لئے نہیں ہے کہ ہم متعدد نظام ہائے سیاست کے تجربے کر چکے ہیں بلکہ اس کی وجوہات اتنی واضح ہیں کہ کوئی بھی، خاص طور پر سیاستدان، انہیں تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔

تو گورننس کی برس ہا برس کی ناکامیوں کے بعد کیا شہری واقعی اپنے لیڈران کو بتانے کے لئے تیار ہیں کہ ٹھیک کرنا کیا ہے؟ تو سنیے:

1۔ ووٹنگ کا نظام ٹھیک کیجیے۔ صدارتی نظام کے ذریعے ستاروں اور پارلیمانی نظام کے ذریعے چاند تک پہنچنے سے پہلے کیا یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ ووٹ کی اہمیت کیا ہے؟ نیپولیئنوں، چرچلوں اور اتاترکوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے بے یار و مددگار پاکستانی عوام کی قسمتوں کا سودا کر کے اپنی کایائیں پلٹ ڈالیں لیکن کسی نے یہ سیاسی اور اخلاقی جرات نہیں دکھائی کہ جمہوریت کے سنگِ بنیاد یعنی ووٹنگ کا طریقہ کار درست کر لیتا۔ جب تک جمہوریت کا مطلب وہی لیا جاتا رہے گا جو ڈسکہ میں ہوا ہم خود کو اس کنویں میں سے نکالنے کے لئے اسے مزید گہرا کھودتے جائیں گے جسے ہم اپنی تباہی کا ذمہ دار بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ ہماری تباہی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار نظام نہیں، لیڈران ہیں۔ تمام کے تمام۔

2۔ انتخابی نظام کی درستگی۔ ریاست میں واقعی کوئی بڑی خرابی ہے اگر سیاست میں حصہ لینا اتنا مشکل ہو چکا ہو کہ عام آدمی اسے اپنے لئے ویسے ہی ناممکن تصور کر بیٹھے۔ بھول جائیے صدارتی اور پارلیمانی کو، اور اس نظام کے خمیر میں گندھے اصل مسئلے کو پہچانیں جو ہر اس شخص کے لئے سسٹم میں حصہ لینا ناممکن بنا دیتا ہے جس کے پاس ضائع کرنے کے لئے بیش بہا پیسہ نہ ہو۔ یہ نظام عام آدمی کے لئے بند ہے۔ ایک ایسا نظام جو اپنے شہریوں کی اتنی بڑی اکثریت کے لئے بند ہو کیسے ایک نمائندہ نظام کہلا سکتا ہے؟ جب حقیقی ٹیلنٹ کے لئے راہیں اس حد تک مسدود ہوں گی تو برا مال ہی سامنے آئے گا۔ اس ناکامی کا ذمہ دار نظام نہیں، لیڈران ہیں۔ تمام کے تمام۔

3۔ پولیس کو ٹھیک کریں۔ ایک لوٹ مار کرنے والی ریاست کی نشانی ایک لوٹ مار کرنے والی پولیس ہوتی ہے۔ دہائیوں سے پولیس فورس جمہوریت کے نام پر ہر قسم کی کرپشن کے لئے ایک آلہ کار رہی ہے۔ یہ صدارتی نظام میں بھی اتنی ہی سفاک، نااہل اور کرپٹ رہی ہے جتنی پارلیمانی نظام میں۔ عمران خان ان درجنوں سیاستدانوں کی فہرست میں تازہ ترین ہیں جنہوں نے پولیس کی اصلاحات کے نام پر سیاست کی اور اقتدار میں آنے کے بعد اس وعدے کو بڑی آسانی سے بھلا دیا۔ پولیس عوام کے ساتھ ریاست کا سب سے زیادہ واضح، پر اثر اور براہِ راست رابطہ ہے۔ اس ادارے کو ٹھیک کرنا سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ ہوا الٹا یہ ہے کہ ہمارے تمام صدارتی نظام کے گن گانے والے اور ان کے ہمنوا ہوں یا پارلیمانی نظام کے قوال اور ان کے ہمنوا، سب نے پولیس کو بے دردی سے اپنے جمہوری credentials کو چمکانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ آج اگر پولیس پاکستان میں کسی قسم کی گورننس اصلاحات نہ ہونے کا استعارہ ہے تو اس ناکامی کا ذمہ دار نظام نہیں، لیڈران ہیں۔ تمام کے تمام۔

4۔ نظامِ انصاف کو درست کیجیے۔ کسی ایک شہری کا نام بتا دیجیے جو سمجھتا ہو کہ یہ نظام کرپٹ اور تباہ حال نہیں ہے۔ کسی ایک شہری کا نام بتا دیں جو کہتا ہو کہ وہ اس نظام سے فوری اور سستا انصاف حاصل کر سکتا ہے، اور کسی ایک شہری کا نام بتا دیں جو سمجھتا ہو کہ گذشتہ کئی پارلیمانی اور صدارتی نظاموں کے ادوار میں اس نظام میں کوئی بہتری آئی ہے، تھوڑی سی بھی۔ ایک کا بھی نام بتا دیں۔ ہمارے تمام نیپولین، چرچل اور اتاترک جمہوریت کے اس بنیادی اور اہم ترین رکن کو ٹھیک کیے بغیر ہی اپنی اپنی باریاں لے کر چلے گئے، خواہ وہ صدارتی نظام کا نام استعمال کر رہے تھے یا پارلیمانی۔ کسی کے پاس بے پناہ طاقت تھی، کسی کے پاس کچھ کم ہوگی لیکن سب میں ایک چیز مشترک تھی کہ وہ اس چیز کو ٹھیک کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے جسے ٹھیک کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ آج شہری خوار ہوتے ہیں کیونکہ یہ تمام صدارتی و پارلیمانی قوال اور ان کے ہمنوا اپنی اس بنیادی جمہوری ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام رہے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار نظام نہیں، لیڈران ہیں۔ تمام کے تمام۔

5۔ قانون کی عملداری قائم کیجیے۔ میرٹ جائے بھاڑ میں۔ حقوق جائیں بھاڑ میں۔ طاقت مل گئی، تو غلط استعمال ہوگا۔ کچھ کہانیاں کبھی نہیں بدلتیں۔ کتنا مشکل ہے ایک لیڈر کے لئے آئین پر عملدرآمد کروانا اگر وہ واقعی اس کی خواہش رکھتا یا رکھتی ہو؟ لیکن جب صدارتی والے آئین کو غیر جمہوری انداز میں اور پارلیمانی والے جمہوری انداز میں پامال کرتے ہیں تو فرق صرف درجے کا ہوتا ہے یا پھر اس چیز کا کہ کون سی شقیں پامال ہوئیں۔ نظام کے ساتھ تمام تجربے آئین کی قیمت پر ہی کیے گئے۔ آئین میں ترمیم کا ایک قانونی طریقہ موجود ہے۔ غیر قانونی طریقہ بھی ہے جسے بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اگر آج ہمارے صدارتی اور پارلیمانی قوال اور ان کے ہمنوا یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظام جمہوری اجماع کے نتیجے میں بنتے ہیں اور ان کا ظہور جمہوری اداروں کی شکل میں ہوتا ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر ہم آج بھی اپنی دم منہ میں لینے کی کوشش میں گول گول گھوم رہے ہیں۔ اس ناکامی کا ذمہ دار نظام نہیں، لیڈران ہیں۔ تمام کے تمام۔

صدارتی نظام کی یہ تازہ ترین بحث، چاہے اس کے پیچھے کوئی سازش ہے یا نہیں، اتنی ہی غیر اہم ہے جتنی غیر اہم اس سے پچھلے والی یا پھر اس سے پہلے والی تھی۔ یہ اس لئے غیر اہم ہے کہ یہ ہماری گورننس کے اصل مسائل کی تشخیص نہیں کرتی، اور اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ کہ یہ ہماری گورننس کو خراب کرنے والے کرداروں کی بھی درست تشخیص نہیں کرتی۔ انتہائی مایوسی کی بات ہے کہ اپنے صدارتی اور پارلیمانی قوالوں اور ان کے ہمنواؤں سے ہم نے صرف یہی سبق سیکھا ہے کہ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ لیکن پھر بات وہی ہے، یہ سب پہلے ہی آپ کے علم میں ہے۔
سب کچھ پہلے سے پتہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔

فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔