وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ بچت اتنی نہیں جتنی سرمایہ کاری کیلئے چاہیے، ٹیکس اتنا اکٹھا نہیں ہوتا جتنا اخراجات کیلئے چاہیے جبکہ اتنی برآمدات نہیں ہوتیں کہ درآمدات برداشت کرسکیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام ''دنیا کامران خان کے ساتھ'' میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام میں کمٹمنٹس کیلئے گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں معاشی حجم کے لحاظ سے دیکھی جاتی ہیں اور پبلک پرائیویٹ منصوبوں کیلئےحکومتی ضمانت دی جاتی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ نجی شعبوں کی 06 -2005 کےبعد سرمایہ کاری نہیں دیکھی گئی، 6 ماہ میں 1 ہزار ارب روپے کے قرضے نجی شعبوں نے لیے، ایف بی آرمیں بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے، بجٹ خسارہ سود کی ادائیگی اور پرائمری بیلنس پرمشتمل ہوتا ہے، پرائمری بیلنس رواں آمدن اوراخراجات پرمشتمل ہوتا ہے اور اس پر خسارہ پچھلے 15 سال میں کم ترین رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2017 تک گردشی قرضہ سالانہ 450 ارب روپے بڑھ رہا تھا جو ہم 130 ارب روپے سالانہ تک لائے، ٹرانسمیشن ٹی اینڈ ڈی لاسز پہلے سے کم ہو رہے ہیں، ایل این جی پرانحصار کم کر کے 2 سال میں 140 ارب روپے بچائے، گردشی قرضہ سال کے آخرمیں 300 ارب تک کم کرنےکا ہدف ہے۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کیلئے کیش میں کاروبار کرتے ہیں، اگر یہ نظام فوراً تبدیل کیا تومعیشت منجمد ہوتی نظر آئے گی، اس کا حل ڈیجیٹل اکانومی اور ڈیجیٹل کامرس سے نکل سکے گا، وزارت خزانہ اوراسٹیٹ بینک کی پالیسیاں ترقی کی وجہ بنی ہیں۔