جہانگیر ترین کی بیرون ملک اڑان کے ہفتہ بھر بعد شہبازشریف بھی لندن پرواز کی تیاری پکڑ چکے تھے لیکن مبینہ طور پر " کپتان " نے ان کی پاکستان سے باہر نکل جانے کی کوشش کو تاخیر سے دوچار کروایا۔ اسی دوران اپوزیشن لیڈر کو ' کرونا ' ہوگیا جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو انہیں فوراً مزاج پرسی کا فون کیا۔
ذرائع کے مطابق اسے سیاسی حلقے ' انا پرست ' اور ضدی وزیراعظم کو اس پیغام کے طور پر لے رہے ہیں کہ اس وقت ملک سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف مقتدر حلقوں نے قومی یک جہتی کی خاطر 'چہرے کی تبدیلی' کو ناگزیر قرار دے دیا ہے۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت " نون " لیگ کی طرف سے نئے وزیر اعظم کے لئے تحریک انصاف کے ہی گدی نشین جو کبھی نون لیگ میں بھی گوشہ نشین ہو چکے اور براستہ پیپلز پارٹی اب تحریک انصاف کے نائبین میں سے ہیں کے نام پر اتفاق کے بعد 'ان ھاؤس تبدیلی' کی غرض سے پی ٹی آئی سے قابل قبول چہرے کی تلاش سنجیدگی سے شروع کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے کرونا میں مبتلا ہونے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوری طور پر انہیں فون کرکے قائد حزب اختلاف کی خیریت دریافت کی تاکہ حکومتی حلقوں کو یہ پیغام جاسکے کہ اس لمحے ملی یک جہتی اور قومی ھم آہنگی کس قدر وقت کی ضرُورت ہے ،
بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل باجوہ کی طرف سے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو ان کی مزاج پرسی اور نیک تمناؤں کے اظہار کے لئے فون کئے جانے پر اپنے قریبی حلقوں میں شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے ، اور اس حوالے سے اپنے شدید تحفظات اور محسوسات سے مقتدر حلقوں کو آگاہ بھی کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ن) کی ہائی کمان نے 'ان ہاؤس تبدیلی' کی صورتحال پیدا ہوجانے پر جہاں پارٹی کی طرف سے نئے وزیراعظم کے لئے ایاز صادق کے نام پر اتفاق کیا اور انہیں متحدہ اپوزیشن کا متفقہ امیدوار بنوانے کا فیصلہ کیا ہے وہیں برسر اقتدار پی ٹی آئی میں سے بھی 'خارجہ امور' کے ماہر رہنما کو قابل قبول چہرہ مانتے ہوئے ان کے نام پر رضا مندی دے دی ہے۔
دوسری جانب مقتدر حلقوں اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں میں اس بات پر اتفاق رائے عمل میں آچکا ھے کہ چاہے پی ٹی آئی کی حکومت اپنے 5 سال پورے کرے البتہ قائد ایوان کے لئے چہرے کی تبدیلی اب ناگزیر ہوچکی ہے۔ خطے کی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر ذرائع بتاتے ہیں کہ مقتدر قوتیں ملک کے سیاسی ماحول میں مکمل یگانگت اور اتحاد چاہتی ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان کا مؤقف ہے 'میں احتساب کے نعرے پر ووٹ لے کر آیا ہوں جو میری طرز سیاست کا ناگزیر پہلو ہے ، میں اسی واحد "مینڈیٹ" سے پیچھے ہٹ جاتا ہوں تو پھر میرے ہاتھ میں کیا رہ جاتا ہےَ؟