Get Alerts

کسٹم افسران کی خفیہ سرمایہ کاری کا نیٹ ورک قومی خزانے کے لئے خطرہ بن گیا

کسٹم افسران کی خفیہ سرمایہ کاری کا نیٹ ورک قومی خزانے کے لئے خطرہ بن گیا
محکمہ کسٹم کے افسران اور ان کے عزیزوں کی جانب سے ملک بھر میں کلیئرنگ اینڈ فاورڈنگ کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ گیا ہے حالیہ عرصہ میں ایک ریٹائرڈ افسر نے اندرون سندھ کروڑوں روپے کی لاگت سے کیچپ کا بڑی فیکٹری لگائی ہے جس کے اطراف کی سنسنان زمینوں پر کچھ گودام بنا کر یہاں ٹرانسشپمنٹ پرمٹ پر کراچی کی بندرگاہوں سے پنجاب جانے والے کنٹینرز بھی کھول کر ان کا سامان تبدیل کیا جاتا ہے.

جبکہ کسٹم میں اسمگلنگ اور ٹیکس چوری پر بننے والے کیسوں میں ملزمان کو قانونی مد د فراہم کرنے کا بیڑا بھی کسٹم کے افسران اور ان کے فرنٹ مین کلیئرنگ ایجنٹوں نے اٹھا لیا ہے جس کے لئے ڈیفنس میں سب سے فعال ”لا فرم“ کا دفتر بنایا گیا ہے جہاں روزانہ درجنوں کسٹم افسران بیٹھ کر جوڑ توڑ کر کرتے ہیں اس کمپنی کو کسٹم کیسوں میں عدالتوں سے حکم امتناع دلوانے اور کیس لڑنے کا سب سے زیادہ کام مل رہا ہے.

انڈیس گزٹ میں شائع صحافی عمران خان کی رپورٹ کے مطابق اس منافع بخش کاروبار میں ایک جانب کرپشن سے حاصل کیا گیا کالا دھن کھپایا جا رہا ہے اور دوسری جانب کسٹم کے افسران چونکہ خود کسٹم قوانین اور کلیئرنس کے عمل کو سمجھتے ہیں اس لئے ٹیکس چوری کے لئے انڈر انوائسنگ ،مس ڈکلریشن او ر اسمگلنگ جیسی وارداتوں کے لئے انہیں تمام راستے بخوبی معلوم ہوتے ہیں جبکہ محکمہ میں اپنے تعلقات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کام بھی حاصل کرلیتے ہیں اور پکڑے جانے کی صورت میں معاملات بھی آسانی سے طے کر لئے جاتے ہیں.

کسٹم کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ محکمہ کسٹم میں گذشتہ 30برسوں میں کام کرنے والے افسران کے کچھ ایسے گروپ اور لابیاں بن گئی ہیں جن کے ذریعے کئی کسٹم افسران کرپشن سے کمائی گئی اپنی اضافی آمدنی کی سرمایہ کاری کررہے ہیں یہی گروپ بڑے اسمگلنگ کے نیٹ ورکس اور اربوں کا ٹیکس چوری کرنے والے تاجروں کو معاونت فراہم کرکے اس بدترین معاشی صورتحال کے دوران ملکی خزانے کو نقصان سے دوچار کرکے ذاتی فوائد سمیٹ رہے ہیں.

حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق کسٹم کے مختلف شعبوں ایئر پورٹ، اپریزمنٹ ویسٹ ویسٹ ،پورٹ قاسم ،ایکسپورٹ ،انفورسمنٹ ،پریونٹو ،اے ایس او انٹیلی جنس میں گزشتہ برسوں کے دوران ممبر کسٹم آپریشن آفس کے باعتماد اور مخصوص افسران کو ہی اہم پوسٹیں دی جاتی رہیں اس دوران یہ افسران انتہائی فعال اور سرگرم رہے۔

معلومات کے مطابق اس 30 سال میں پنپنے والے گروپوں کو یہ مواقع بھی کسٹم اور ایف بی آر کے اعلیٰ افسران کی وجہ سے ملے ہیں کیونکہ کسٹم کے ملک بھر میں موجود درجنوں فیلڈ فارمیشنز چلانے کے لئے سینکڑوں دفاتر اور چوکیوں پر تعینات افسران اور عملے کے لئے سالانہ بجٹ میں اسٹیشنری، ڈاک، یوفیفارم، جوتو ں سے لے کر پٹرولنگ کے لئے ڈیزل اور پٹرول کی مد میں کروڑوں روپے مختص کئے جاتے ہیں تاہم یہ بڑی رقوم نیچے خرچ ہونے کے بجائے بالا ہی بالا ختم ہوجاتی ہے جبکہ ماتحت افسران کو خرچے پورے کرنے کے لئے ’’سسٹم‘‘ کا حصہ بننا پڑتا ہے جہاں سے ملنے والے آمدی پھر ماتحت دفاتر سے اے سی، ڈی سی، اے ڈی سی، کلکٹر اور ممبر آفس تک پہنچتی ہے جبکہ سسٹم چلانے والے مخصوص افسران جب پیسوں کے عوض ’’ٹھیکے‘‘ پر اہم پوسٹنگ کی سیٹ لیتے ہیں تو ان کے ہر اچھے اور برے کام پر افسران کو آنکھیں بندنی پڑتی ہیں۔

کسٹم کے ایک سابق سپاہی  نے ریٹارمنٹ کے بعد پنجاب کے آبائی علاقے میں عالیشان گھر کے ساتھ  ایک بڑی ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک کمپنی ہے جس میں درجنوں بڑے ٹرک اور ٹرالر اور متعدد پرتعیش دفاتر شامل ہیں ان کے دو بھائی ماتحت اہلکاروں سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل اپریزر اور اسسٹنٹ کلکٹر کے عہدوں تک پہنچے جنہیں ممبر آفس کا چہیتا سمجھا جاتا ہے۔

ذرائع کے بقول چند ماہ قبل ایک حساس ادارے کی جانب سے پریونٹو کلکٹریٹ کی اے ایس او کو اطلاع دی گئی ہے شراب کے اسمگلر کروڑوں روپے کی شراب کے کنٹینرز سے لدی لانچیں لا رہے ہیں تاہم اس طلاع پر کارروائی کے لئے اے سی ہیڈ کوارٹر کی جانب سے سپرٹنڈنٹ کو اس وقت بھیجا گیاجبکہ لانچ کراسنگ کر چکی تھی جبکہ اس تاخیر کے لئے مبینہ ڈیلنگ مناف عرف چڈی کی جانب سے کروائی گئی جوکہ شراب کے اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک چلا رہا ہے اور پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رکن قومی اسمبلی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا ہے، کارروائی پر حساس ادارے کی جانب سے چیئرمین ایف بی آر کو شکایت کی گئی جنہوں نے ممبر کسٹم آفس کی سرزنش کے بعد مذکورہ اے ایس ہیڈ کوارٹر اے ایس او کراچی پریونٹو کلکٹریٹ کا تبادلہ کرکے ایکسپورٹ کلکٹریٹ پورٹ قاسم بھیجا تاہم اثر رسوخ کا استعمال کرکے مذکورہ اے سی نے اپنی پوسٹنگ کوئٹہ کروالی۔

ڈیفنس ہاﺅسنگ سوسائٹی کے فیز 8میں کسٹم کے کیسوں کی مہارت رکھنے والی ایک ”لافرم“ کا دفتر بنایا گیا جس میں فرنٹ میں کے طور پر ماضی میں کلیئرنگ ایجنسی چلانے والے ایجنٹوں فیصل اور سلیم کورکھا گیا ہے یہاں بھی اے ایس او کے اس سابق اے سی کے فرنٹ مین کے طور پر مناف عرف چڈی سرگرم ہے, اس کے علاوہ کیچپ کی فیکٹری اور پٹرول پمپ کا مالک سابق کسٹم ڈی سی، کار گروپ میں لمبے عرصہ تک اپریزنگ افسر اور پرنسپل اپریزر ک حیثیت سے کام کرنے والا کروڑ پتی ریٹائرڈ اور بااثر افسر کے ساتھ دیگر کئی افسران شراکت دارہیں۔

اس کمپنی کے شراکت داروں میں کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران شامل ہیں جہاں کیسوں پر ہونے والی جوڑ توڑ کے نتیجے میں ملنے والی رقم تقسیم کی جاتی ہے۔

ذرائع کے بقول کسٹم انٹیلی جنس ،پریونٹو اے ایس او ،اپریزمنٹ ایسٹ ،ویسٹ اور پورٹ قاسم کے علاوہ ایئر پورٹ پر بننے والے کیسوں میں تاجروں ،اسمگلروں ،کھیپیﺅں کو خود کسٹم افسران اپنے کیس اس کمپنی کو دینے پر اصرار کرتے ہیں جس کے بعد اس کمپنی میں موجود افراد اپنی ظاہر کردہ فیس کے علاوہ بھاری رقم پس پردہ وصول کرکے پوری ڈیل کر تے ہیں کہ اس رقم کو تفتیشی افسر ،اے سی ،ڈی سی ،اے ڈی سی اور کلکٹر کے علاوہ ممبر آفس کو اعتماد میں لینے کے لئے استعما ل کیا جائے گا،پھر ملزمان کو کیس میں ہلکاہاتھ رکھ کر ضمانتوں سے لے کر کیس ختم کروانے تک کے مراحل طے کئے جاتے ہیں کام ہونے پھر بھاری رقم وصول کرلی جاتی ہے۔

حالیہ دنوں میں کسٹم کوئٹہ کی جانب سے کراچی کو لکھے گئے خط میں ای موورنامی کمپنی کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ اس کمپنی کے ڈائریکٹرز نے جعلسازی سے افغانستان کے لئے جانے والے کنٹینرمیں سے چمن کے قریب سامان نکال کر اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی واردات کی اس پر مزید کارروائی کی سفارش کی گئی ،مذکورہ کمپنی کے ڈائریکٹر محکمہ کسٹم کے ایک اعلیٰ افسر کے بھائی ہیں کلیئرنگ اینڈ فاورڈنگ کمپنی کی گاڑیوں سے سامان چوری ،اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی وارداتوں پر نصف درجن کے قریب مقدمات کراچی ،پشاور اور کوئٹہ میں درج ہوچکے ہیں تاہم مالکان آج تک گرفتار نہیں ہوئے۔

ذرائع کے بقول حالیہ عرصہ میں ایئر پورٹ کسٹم میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے طویل عرصہ ملازمت کرنے والے افسر نے اندرون سندھ میں کروڑوں روپے کی لاگت سے کیچپ کا بڑی فیکٹری لگائی ہے جس کے اطراف کی سنسنان زمینوں پر کچھ گودام بنا کر یہاں ٹرانسشپمنٹ پرمٹ پر کراچی کی بندرگاہوں سے پنجاب جانے والے کنٹینرز بھی کھول کر ان کا سامان تبدیل کیا جاتا ہے اسی افسر کی جانب سے مبینہ طور پر کیو موبائل کمپنی کے اربوں روپے کی ٹیکس چوری مقدمات میں جوڑ توڑ کروایا تھا جس کے نتیجے میں مالکان کے فرنٹ مینوں سے بھای رقوم وصول کی گئی تھیں۔

تحقیقاتی اداروں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ جن اداروں کے افسران ملک کے شہریوں اور کمپنیوں سے اثاثوں کا سراغ لگا کر ٹیکس اور جرمانے وصول کرنے کے ذمہ دار ہیں ان کے اپنے اثاثوں اور خفیہ سرمایہ کاریوں کی بھی چھان بین ضروری ہے جس پر کام شروع کردیا گیا ہے۔

رپورٹ :عمران خان