محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) خیبر پختونخوا کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سہیل خالد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات میں حقانی نیٹ ورک کے افراد ملوث ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر میں ڈھائی ہزار کے قریب دہشت گردوں کی تشکیل ہو چکی ہے جنہیں حملوں کا حکم دیا گیا ہے اور ان دہشت گردوں میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ افغان دہشت گردوں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
پشاور میں نیا دور میڈیا کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈی آئی جی سہیل خالد نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغان دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک ہو گئی ہے۔ ان کے بقول 'افغانستان میں لڑائی کے خاتمے کے بعد ایسے سینکڑوں پاکستانی جنگجو جو پہلے امارت اسلامی افغانستان کا حصہ تھے، وہ بھی ٹی ٹی پی کی طرف گئے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان بالخصوص پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے'۔
سہیل خالد کے مطابق رواں سال اب تک یعنی گذشتہ 8 مہینوں میں جتنے خودکش حملے ہوئے ہیں، ان میں بھی زیادہ تر افغان دہشت گردوں کو استعمال کیا گیا اور یہ تمام معلومات باقاعدہ تصدیق شدہ ہیں۔
تشدد کے واقعات پر نظر رکھنے والی بیش تر تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان بھر میں اس سال اب تک 18 کے لگ بھگ خودکش حملے ہو چکے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ ان میں زیادہ تر حملے خیبر پختونخوا میں ہوئے ہیں۔
سہیل خالد کے مطابق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے گذشتہ کچھ عرصے سے اپنی تنظیم کی ساخت امارت اسلامی کی طرز پر بنائی ہے اور پاکستان کو مختلف ولایتوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی حکمت عملی رہی ہے کہ پختونخوا میں زیادہ سے زیادہ اپنی موجودگی دکھا سکے اور اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ حملے کرنے کی کوششوں میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی نے ہزارہ ڈویژن میں گھسنے کی بھی کوشش کی ہے حالانکہ پہلے وہاں ان کا کوئی خاص وجود نہیں تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی نے کہا کہ پولیس یا فوج کے اوپر جو حملے ہوتے ہیں ان میں ملوث بیش تر ملزمان بعد میں پکڑے جاتے ہیں۔ ان کے بقول 'ایسے کیسز میں 90 فیصد تک ملزمان ٹریس آؤٹ ہو جاتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات کی بڑی تندہی سے تفتیش ہوتی ہے اور بالآخر ملزمان پکڑے ہی جاتے ہیں یا پھر آپریشنز کے دوران مارے جاتے ہیں'۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں میں بتدریج اتنی تیزی کیوں دیکھی جا رہی ہے اور ان واقعات کو روکنے میں سکیورٹی اداروں کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ تو اس پر ڈی آئی جی نے کہا کہ ان حملوں میں اضافے کی بڑی وجہ سرحد پار افغانستان میں حکومت کی تبدیلی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایسے لاتعداد واقعات ہیں جن کی منصوبہ بندی ہوئی تھی لیکن سکیورٹی اداروں کی طرف سے اسے ناکام بنایا گیا تاہم عوام کو ایسے واقعات کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔
ان کے مطابق ' افغان طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کو افغانستان میں اب کھلی آزادی مل گئی ہے، اس سے پہلے اشرف غنی کی حکومت میں وہ اتنے آزادانہ طریقے سے نقل و حمل نہیں کرسکتے تھے لیکن اب ان پر کوئی قدغن نہیں جس کی وجہ سے سرحد کے اس پار دہشت گردی کے واقعات میں بڑی حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے'۔
ٹی ٹی پی حملوں کے دعوؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سہیل خالد نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے جو بلند و بالا دعوے کئے جاتے ہیں ان میں زیادہ حقیقت نہیں ہوتی بلکہ وہ سارا منظم پروپیگنڈا ہوتا ہے۔
'حملوں میں تیزی ضرور آئی ہے لیکن ٹی ٹی پی کی طرف سے ہر مہینے جو اعداد و شمار جاری کئے جاتے ہیں وہ غلط بیانی پر مبنی ہوتے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کی اکثر یہ کوشش ہوتی ہے کہ بے بنیاد پروپیگنڈا کر کے زیادہ سے زیادہ اپنی موجودگی ثابت کریں اور عوام پر دباؤ بڑھائیں'۔
یاد رہے تحریک طالبان پاکستان نے گذشتہ دو مہینوں یعنی جولائی اور اگست کے دوران لگ بھگ ڈھائی سو حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سہیل خالد نے مزید بتایا کہ موجودہ سکیورٹی صورت حال کو دو ہی طریقوں سے بہتر بنایا جا سکتا ہے؛ ایک گراؤنڈ پر کارروائیاں کرنے سے اور دوسرا سیاسی معاملات کو درست کر کے۔
ان کے مطابق اگر ملک میں بے روزگاری نہ ہو، عوام کو بروقت سستا انصاف مل رہا ہو اور ملک میں سیاسی استحکام بھی ہو تو ایسی صورت حال میں جرائم کی شرح بہت کم ہو جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک اس وقت بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے اور اس بحران کا سکیورٹی کے معاملات پر بھی خاطر خواہ اثر پڑ رہا ہے۔