کچھ سال پہلے جب میں دنیا نیوز میں کام کرتی تھی اور ابھی آن ایئر نہیں گئی تھی تو مجھے دنیا نیوز کے ایک ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کی جانب سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوشل میڈیا اتنا زیادہ فعال نہیں تھا اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ تب کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کیا جانا مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تب میں اس واقعے کی شکایت کہیں بھی نہیں کر سکی تھی۔ یہ کہنا ہے جیو نیوز کے پروگرام ' رپورٹ کارڈ' کی اینکر پرسن علینہ فاروق شیخ کا۔
یوٹیوب پر ایک پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے علینہ فاروق شیخ نے خود کے ساتھ پیش آنے والے ہراسگی کے واقعے کی تفصیل ان الفاظ میں بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں دنیا نیوز میں کام کرتی تھی اور ابھی آن ایئر نہیں ہوئی تھی، تب میرے ایک ایسوسی ایٹ پروڈیوسر نے ایک دن مجھے بلا کر کہا کہ واڈروب کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ مجھے روز اپنے آفس میں لائن حاضر کر لیتے تھے اور یہی بات کہتے تھے کہ آج آپ آن ایئر نہیں ہو سکتیں کیونکہ واڈروب کے بہت مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے مجھے اتنا گھٹیا ایشو بتایا کہ جسے سن کر میری ہمت جواب دے گئی۔ انہوں نے ایک بڑی عجیب سی بات کہی کہ آپ کے ڈریس کی وجہ سے سکرین پر عجیب سا شیڈو یعنی سایہ بن رہا ہے۔ میں اس دن اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ گھر جا کر میں بہت روئی۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ہراسمنٹ کی بات کرتے ہیں اور ورک پلیس ہراسمنٹ کی بات کرتے ہیں کہ میڈیا اور دیگر جگہوں پر خواتین کو کیسے ہراساں کیا جاتا ہے تو ہمیں اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن مجھے رحمان اظہر جیسا اچھا مینٹور ملا جنہوں نے مجھے بہت محفوظ ماحول فراہم کیا۔ جب میں نے ان سے اس واقعے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ان ایسوسی ایٹ پروڈیوسر کو کرارا جواب دینا چاہیے تھا اور ان کا منہ توڑ دینا چاہیے تھا۔ ہراسمنٹ کئی طریقوں سے ہوتی ہے اور یہی ہمارے ہاں کی تلخ حقیقت ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہوتا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
پروگرام کے میزبان نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے اس واقعے کو کہیں رپورٹ کیا، یعنی اپنے ادارے کے ہیومن ریسورسز ڈیپارٹمنٹ میں اس کی شکایت کی تو علینہ فاروق نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے میں اس واقعے کو کہیں رپورٹ نہیں کر سکی تھی کیونکہ جب آپ کام کر رہے ہوتے ہیں تو آپ پر کئی طرح کے دباؤ ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب میں میڈیا میں آئی تھی تو اس وقت لوگ ان مسائل پر بہت زیادہ آواز نہیں اٹھاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ورک پلیس ہراسمنٹ کو ہراسمنٹ سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے علینہ فاروق شیخ نے کہا کہ اب مجھے بہت فخر محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ان مسائل سے متعلق آواز اٹھا رہے ہیں۔ میڈیا میں جو نئے لوگ آ رہے ہیں ان سے متعلق بھی خوشی ہوتی ہے کہ ان کے اندر ان معاملات کی سینس ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ان لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارے لیے اس ماحول کو محفوظ بنایا ہے۔ اب کم از کم ہم یہاں بیٹھ کر اس ایشو پر بات کر سکتے ہیں۔ جب میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تب سوشل میڈیا بھی اتنا فعال نہیں تھا کہ آپ سوشل میڈیا پر کوئی ویڈیو پوسٹ کر دیں تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا یا ٹوئٹ کر دیں تو مسئلہ اجاگر ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے کہ لاہور میں آپ پر سیٹھ میڈیا کا پریشر بھی بہت ہوتا ہے۔
علینہ فاروق شیخ جیو نیوز کے ساتھ وابستہ ہیں اور پروگرام ' رپورٹ کارڈ' کی میزبانی کرتی ہیں۔ علینہ فاروق شیخ پہلی خاتون نہیں ہیں جنہیں ورک پلیس ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں آئے روز کوئی نہ کوئی آواز اٹھتی رہتی ہے جس میں کم و بیش اسی قسم کی کہانی سامنے آتی ہے۔ چند سال قبل ہالی ووڈ سے ہراسانی کے خلاف Metoo کے نام سے جو مہم شروع ہوئی اس میں دنیا بھر سے خواتین نے خود کے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کہہ سنائے تھے۔ اس مہم میں پاکستان سے بھی کئی آوازیں شامل ہوئی تھیں۔ گلوکارہ میشا شفیع نے گلوکار علی ظفر سے متعلق بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا تھا کہ ماضی میں علی ظفر نے انہیں ہراساں کیا تھا۔