سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ریٹائرڈ جج قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے 23 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا جس کے مطابق شوکت عزیز صدیقی بطور ریٹائرڈ جج پنشن سمیت تمام مراعات کے حقدار قرار ہوں گے۔
عدالت نے شوکت عزیز صدیقی کی فیصلے کے خلاف آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر درخواست کو منظور کرتے ہوئے گیارہ اکتوبر 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل کی اس حوالے سے رپورٹ اور رائے کے بعد صدر مملکت کی جانب اسے اس پر عمل کو کالعدم قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں تسلیم کیا کہ بدقسمتی سے شوکت عزیز صدیقی کے مقدمے کے فیصلے میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچ گئے اس لیے ریٹائرمنٹ عمر کی وجہ سے اب انہیں بطور جج بحال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری کو شوکت صدیقی کیس فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
کیس کی آخری سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ تمام فریقین تسلیم کر رہے ہیں مکمل انکوائری نہیں ہوئی۔
11 اکتوبر 2018 کو دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ جوڈیشل کونسل نے آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل کا حق نہیں دیا اور درخواست گزار کو آئینی حق سے محروم رکھا گیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو الزامات کی انکوائری کرنی چاہیے تھی۔ اس تمام کارروائی کا مقصد مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا۔
شوکت صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج تھے اگر شوکت صدیقی کو فوری کارروائی کر کے اکتوبر 2018 میں برطرف نہ کیا جاتا تو 26 نومبر 2018 کو انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف اُٹھانا تھا۔
انہوں نے اپنی درخواست میں کونسل کی جانب سے برطرفی کی سفارش کو بدنیتی قرار دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر سابق جج شوکت صدیقی کو اکتوبر 2018 میں خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ کونسل کا موقف یہ تھا کہ شوکت صدیقی بطور جج مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اس لیے آرٹیکل 209 کے تحت انہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔
چونکہ شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے۔ جس کے بعد اُن کے بیان پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔