خودنوشت "پریشاں سا پریشاں" پر تبصرہ

خودنوشت
ڈاکٹر مجاہد مرزا اپنی کاٹ دار تحریروں اور متنوع موضوعات کے باعث ممتاز ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کی آپ بیتی ہے جس میں انہوں نے جگر کھول کر رکھ دیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور میں ایک کثیرالعیال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چھوٹے ہونے کے باعث قدرے لاڈلے لیکن والد کی عدم توجہی کا شکار ایک حساس بچہ جو کبھی اس ضد پر آ جاتا کہ اللہ میاں کو ”دیکھنا“ ہے تو کبھی کمہاروں کے ساتھ بیٹھا گھنٹوں مٹی کے برتن بنتے دیکھتا ہے۔

مطالعے کے رسیا مجاہد نے لڑکپن میں جب علی پور کا ایلی نامی کتاب دیکھی تو بڑے عرصے تک اسے غلط فہمی کا شکار رہا کہ یہ اسی کے شہر کے کسی ایلی کی داستان ہے۔ والد جنگلی لکڑی کا کام کرتے تھے اور شہر کے متمول افراد میں شمار ہوتے تھے۔ ایک کاروباری دھوکے سے ان کی مالی حالت خراب ہو گئی جس سے ننھے مجاہد کو زندگی کی تلخ حقیقتوں کا کم عمری میں ہی ادراک ہونا شروع ہو گیا۔ مجاہد ویسے بھی بہت حساس اور زودرنج طبیعت کے مالک تھے۔



لڑکپن سے نوجوانی میں قدم رکھتے ہوئے جن جسمانی اور جنسی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مجاہد نے ان کا دل کھول کر ذکر کیا اور اس سلسلے میں کسی تکلف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اپنی تحصیل میں اوّل میڑیکولیٹ مجاہد گورنمنٹ کالج لاہور کی راہداریوں میں کیا پہنچے، زندگی کی جون ہی بدل گئی۔ بائیں اور دائیں بازو کی سیاست عروج پر تھی۔ نوجوانی کا خمار، مجاہد کبھی اشتراکی ہم خیالوں کے ساتھ جلسوں میں جاتے تو کبھی دیسی شراب کے خوگر ہو جاتے۔

کبھی ایک ہی دن میں فلموں کے تین شو دیکھنے تو کبھی خونخوار جھگڑوں میں امان پانی۔ اسی اثنا میں پہلی محبت کا مزہ بھی چکھ لیا۔ دلچسپی کی بات ہے اس محبت میں ایک ہی رضائی میں لیٹ کر چہرے اور ہاتھوں کے لمس سے تو ایک دوجے کو آشنا کرتے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ مجاہد اس کو کنٹرول نہیں بلکہ ”لاعلمی“ پر محمول کرتے ہیں۔ عثمان پیرزادہ، سرمد صہبائی جیسے نابغہ روزگار بھی ان دنوں گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے جن سے مجاہد کی گاڑھی چھنتی۔

خاندانی مجبوریوں کے باعث پہلی محبت سے شادی کو رد کیا جانا مجاہد کے لئے اتنا بڑا صدمہ تھا کہ وہ خود کشی کے لئے واپڈا ہاؤس کی چھت پر پہنچ گیا لیکن وہاں موجود پٹھان چوکیدار کی بروقت آمد نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ پڑھائی سے جی اچاٹ ہونے کے باوجود ایف ایس سی میں اتنے نمبر آئے کہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں داخلہ مل گیا۔ وہاں اپنی بے کلی کو سکون دینے کے لئے تبلیغی چلے کا بھی سہارا لیا لیکن بات نہیں بنی۔

محبت میں ناکامی، معاشرے میں پھیلی جہالت، غربت نے مجاہد کے ذہن پر اتنا اثر ڈالا کہ خودکشی کا شوق پھر ابھر کر سامنے آ گیا۔ کافی مقدار میں خواب آور گولیاں کھا کر خود کشی کی سعی اس دفعہ ایک دوست نے ناکام بنا دی جو بروقت ہسپتال لے آیا۔ عملی سیاست میں داخلے کو جیل یاترا نے مہمیز دی جو چھبیس دنوں پر محیط تھی۔ زندگی میں شراب کے ساتھ اب چرس کی بھی خوش کن آمد ہو گئی تھی۔ خنجر اور پستول تو اب ان کا فخر مردانگی تھے۔



اسی ہنگام ایم بی بی ایس کی ڈگری نے یہ اطلاع دی کہ اب ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ لگ چکا ہے۔ اس زمانے میں نئے ڈاکٹروں کے لئے دو سال فوجی سروس لازمی قرار دے دی گئی تھی۔ چالیس دنوں کی رسمی تربیت کے بعد مجاہد کے شانے کپتانی کے ستاروں سے چمک رہے تھے۔ پہلی تعیناتی شمالی علاقہ جات بمقام گوری کوٹ، گلتری تھا اور پھر اپنے شہر ملتان۔ اس زمانے میں فوجی میسوں میں شراب کا رواج تھا جو مجاہد کو بہت بھایا لیکن ان کو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ افسر لوگ چرس صرف اس لئے نہیں پیتے تھے کیونکہ وہ سپاہی طبقہ پیتا تھا۔

مجاہد نے اس سے بغاوت کرتے ہوئے علی العلان چرس پینا شروع کر دی۔ نئے چیف ضیا الحق نے شراب اور چرس دونوں پر پابندی لگا دی لیکن مجاہد اس پابندی کو کیا خاطر میں لاتے۔ ان کی اس دیدہ دلیری سے متاثر ہو کر ایک میجر اور کچھ کپتان ان کے پاس چرس کا تقاضا کرنے آ گئے۔ مجاہد کو شرارت سوجھی تو ان کو ایک کے بعد دوسرا سگریٹ پلانے لگ گئے۔ خود تو وہ عادی تھے لیکن نو آموز پہلے سگریٹ کے بعد ہی بہک گئے۔ مجاہد کی گرمی کی شکایت پر پہلے قمیضیں اور پھر پتلونیں اتار دی گئیں۔ پھر مجاہد کی ہی تجویز پر صرف انڈر وئیر میں ملبوس یہ قافلہ موٹر سائیکلوں پر شہر کی طرف ”ہوا لگوانے“ چل پڑا۔ وہاں اپنی بیگم کے ساتھ میجر جنرل کی حیرت اور تشویش بھری نظریں مجاہد کو کبھی نہیں بھولیں۔

دو سال کے بعد مجاہد فوج کو خیر باد کہہ کر اپنی ہنگامہ خیز شادی کے بعد آئی دلہن کو لے کر روزگار کے لئے لاہور سے ہوتے ہوئے ایران جا پہنچے۔ انقلاب کے بعد ایران میں منشیات پر سخت پابندی عائد تھی جس کی سزا موت تھی۔ وطن سے دور ان سخت حالات میں بھی مجاہد نے شراب اور چرس کی فراہمی ٹوٹنے نہیں دی۔ ان کی بیگم بہت روشن خیال، نشتر کی ہی پڑھی ان کی ہم خیال تھیں اس لئے اس موضوع پر کوئی تلخی نہیں ہوئی۔ ایران میں یہ جلد ہی فارسی سیکھ گئے اور معاشرے میں گھل مل گئے۔




یہ بھی پڑھیے: ’’نولکھی کوٹھی‘‘ پر تبصرہ






مجاہد ایرانیوں کے اخلاق و تہذیب کے بہت معترف ہیں اور اس کو قابل رشک گردانتے ہیں۔ وطن واپسی پر روزگار انہیں مریدکے، کوٹ ادو وغیرہ لیے پھرا۔ اشتراکیت سے ان کی جنون کی حد تک بڑھی دلچسپی انہیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان تک لے آئی جس کی تنظیم سازی کے لئے وہ سر توڑ کوششیں کرتے رہے۔ سرخ سپید رنگت، بے پناہ علم اور مردانہ وجاہت انہیں عورتوں میں ہمیشہ مقبول کیے رکھنے کے لئے کافی تھا جنہیں صرف اس لئے مجاہد پیش قدمی کا موقع دیتے کہ کہیں ان کا دل نہ ٹوٹ جائے۔ معاشرے میں پھیلی بے انتہا منافقت اور خود غرضی انہیں بہت تکلیف دیتی تھی جس سے دلبرداشتہ ہو کر آخر وہ روس جا بسے جہاں تاحال وہ مقیم ہیں۔

یہ کتاب ان آپ بیتیوں سے بالکل مختلف ہے جس میں مصنف اپنے نفس اور انا کو ابھارنے کے لئے کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہے۔ مجاہد نے اپنی کجیوں، کمیوں کو بڑے فخر سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ایک ایسے دوست کا سا احساس ہوتا ہے جس کے لئے آپ کا من کرتا ہے کہ وہ باتیں کرتا جائے اور آپ سنتے جائیں۔ یہ کتاب ایک بہتی ندیا ہے جس کی موجوں کے سنگ آپ ہولے ہولے تیرتے لطف اٹھاتے ہیں۔ اس کو پڑھتے ہوئے کبھی آپ کو خوشونت سنگھ کی سی سچائی دکھتی ہے تو کہیں نصیرالدین شاہ جیسی جرأت۔

کبھی آپ کو ممتاز مفتی کا گمان ہوتا ہے تو کبھی احمد بشیر کی بے خوفی اور انسان دوستی۔ ایک عرصے کے بعد ایسی آپ بیتی آئی ہے جس میں مصنف اپنے اوپر دل کھول کر ہنستا ہے اور آپ کو بھی ہنساتا ہے۔ انسانی اشکال اور نفسانی پیچیدگیوں کا کھلم کھلا اظہار بھی کرتا ہے اور اپنی نادانیوں، حماقتوں پر ٹھٹھا بھی۔ کہیں کہیں کتاب آپ کو شاستروں کے بھید سکھاتی ہے تو کہیں سچائیوں کے ساتھ جم کر کھڑے ہونے کا حوصلہ بھی۔ جنس کی خاردار وادی میں مجاہد ”بے تیغ مجاہد“ کی سی پامردی دکھاتے ہیں اور رومان کی الجھنوں میں معصومیت کا پیکر بن جاتے ہیں۔

کتاب کی زبان شستہ اور رواں ہے۔ ناشر کی عدم توجہ کی وجہ سے پروف ریڈر نے بھی کتاب کے ساتھ وہی حشر کیا ہے جو مجاہد نے چرسی افسروں کے ساتھ کیا۔ امید ہے اگلے ایڈیشن تک کتاب راہ راست پر آ جائے گی۔

کتاب صرف آن لائن دستیاب ہے۔ خواہش مند ناشر زاہد کاظمی کو فون کروا کے براہ راست وی پی کروا سکتے ہیں۔

رابطہ نمبر 03345958597
صفحات۔ 702
ناشر۔ سنگی کتاب گھر ہری پور
قیمت۔ 1500 روپے
قیمت پندرہ سو روپے
ڈاک خرچ مفت

سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔