شاگرد: سر آپ نے اپنا وطن کیوں چھوڑا؟
استاد: بیٹا وطن طین سے مشتق ہے جس کا مطلب مٹی ہوتا ہے اور جس مٹی کے بنے ہوں اسے کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ ہاں ظالموں سے جان بچانا پڑتی ہے۔ اپنی مٹی سے پیار مرتے دم تک رہتا ہے اور اس مٹی پر قابض ظالموں کے ظلم کے خلاف بیان کو کبھی بھی سوہنی دھرتی کے خلاف بیان نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اسے سوہنی دھرتی کے حق میں بیان سمجھنا چاہیے کہ یہ اس دھرتی پر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج ہے۔
شاگرد: آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
استاد: کیا کیا ہوا دل کے ساتھ۔۔۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ بچپن سے بڑے ہونے تک ہمیشہ یہی کوشش کی کہ کوئی غلط حرکت نہ ہوجائے کہ ایک اقلیت پر ہر وقت سب کی نگاہ مائکرو سکوپ کی طرح لگی رہتی ہے۔ وہ لوگ جو اکثریت سے ذرا ہٹ کر نظریات رکھتے ہیں ان کا یہ طرز عمل ہی کچھ معاشروں میں جرم سمجھا جاتا ہے اور ان کے والدین ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ دیکھنا کوئی غلط حرکت نہ کرنا اور شاید یہی معاشرتی حالات انہیں ایک بہتر انسان بنا دیتے ہیں اور کوالٹی اقلیت میں ہی ملتی ہے۔
شاگرد: بچپن سے بڑے ہونے تک کون سا ایسا رویہ تھا جس کا آپ کو سامنا کرنا پڑا جس سے ذہنی اذیت اٹھانا پڑی؟
استاد: بچپن سے بڑے ہوتے تک اکثریت والوں سے یہی ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں انہیں ہمارے نظریات کا نہ پتہ چل جائے اور پھر وہ ہم سے عام انسانوں جیسا سلوک نہ بند کر دیں اور نفرت والا رویہ نہ شروع کر دیں۔
شاگرد: تو کیا آپ لوگ اپنے نظریات پر شرمندہ تھے کہ آپ کے قابل شرم نظریات ہیں جنہیں دوسروں سے چھپانا پڑتا تھا؟
استاد: بیٹا کسی کا آپ کے نظریات کی بنیاد پر آپ سے نفرت کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ کے نظریات قابل شرم ہیں اور آپ اپنے نظریات کو قابل شرم یا گندا سمجھتے ہیں بلکہ یہ تو دوسرے کی چھوٹی سوچ ہوتی ہے کہ وہ اپنے نظریے کے علاوہ کوئی اور نظریہ برداشت نہیں کر سکتے اور پھر وہ اس حالت تک پہنچ جاتے ہیں کہ کسی مخالف نظریے والے پر جانوروں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں اور ہر عقلمند انسان ایسی صورتحال سے بچتا ہے۔ باقی یہ ہے کہ اچھے انسان بھی تھے جن سے کھل کر بات ہوتی تھی اورکبھی اپنا نظریہ نہیں چھپایا بلکہ ہمیشہ اس پر فخر کیا، بلکہ اچھے لوگوں کو خود جا کر اپنے نظریے سے متعارف کرواتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ آؤ کچھ تبادلہ خیال کریں اور بعض اوقات نہایت خطرناک صورتحال میں بھی ہوتے تھے تو ڈر کر اپنے نظریہ سے انکار نہیں کرتے تھے کہ بزدلی اور منافقت کا ہماری سرشت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
شاگرد: آپ ایک ڈاکٹر تھے اور آپ کے وطن میں ڈاکٹر کی بڑی عزت ہے پھر کیوں چھوڑ آئے وہ گلیاں؟
استاد: وہ گلیاں ابھی بھی دلی طور پر ہمارے ساتھ ہیں۔ ہاں، ان سے کچھ مکانی دوری ضرور ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر کی عزت تب تک ہے جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ وہ احمدی ہے۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا کہ ایک غریب بستی میں کلینک کھولا جہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا بلکہ ایک بندہ جو ڈاکٹر نہیں تھا بلکہ اتائی تھا، وہ کلینک کرتا تھا۔ جب اس علاقے کے لوگوں کو پتہ چلا کہ یہاں سند یافتہ اصلی ڈاکٹر آیا ہے تو لوگ ہماری طرف آنے لگے۔ ہم خود ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے والد کو غربت میں بھی دوسروں کی مدد کرتے دیکھا تو کلینک کی فیس پہلے ہی کم رکھی تھی، لیکن بعض اوقات کچھ مریضوں کو دیکھ کر ان کی غربت کا اندازہ ہو جاتا تھا اور بجائے ان سے فیس لینے کے انہیں کچھ دینے کا دل کرتا تھا۔ ان سے فیس نہیں لیتے تھے اور اگر کوئی کہتا کہ ہمارے گھر چل کر مریض دیکھ سکتے ہیں تو ان کے گھر بھی چلے جاتے۔ ان حرکتوں کی وجہ سے علاقے میں مشہور ہونا شروع ہو گئے۔ اور کلینک بہت مختصر عرصہ میں مریضوں سے بھرنا شروع ہو گیا۔
شاگرد: پھر تو اہل محلہ بہت خوش ہوئے ہوں گے؟
استاد: جی بیٹا، عوام تو ہمیشہ اس سے خوش ہوتی ہے جو ان کی مدد کرے لیکن معاشرے کے چند چوہدری یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کی چوہدراہٹ میں کمی آئے اور وہ ایسے لوگوں کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو اپنے کردار سے معاشرے کے حقیقی ہیرو بنتے نظر آئیں۔ کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا کہ ایک دن جب کلینک کھولا اور اندر آ کر اپنی سیٹ پر بیٹھے تو تھوڑی دیر بعد تین نوجوان غنڈے کلینک میں داخل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم ’قادیانی‘ ہو اور اگر تم اپنی جان کی امان چاہتے ہو تو اس علاقے سے اپنا کلینک بند کر دو اور آئندہ یہاں نظر نہ آنا۔
شاگرد: ایسا کیوں ہوا؟
استاد: بیٹا اگر ایک جگہ ایک جعلی ڈاکٹر کلینک چلا رہا ہو اور اس علاقہ میں اصلی ڈاکٹر آ جائے اور جعلی ڈاکٹر کا کام ٹھپ ہونا شروع ہو جائے تو وہ مختلف طریق سوچتا ہے کہ کس طرح اصلی بندے کا کام بند کروایا جائے اور جب اسے پتہ چل جائے کہ اس کا حریف احمدی ہے تو کام آسان ہو جاتا ہے اور اس کا کام بند کرانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو اسے ڈائریکٹ دھمکی دینا اور دوسرا عوام میں اس کے خلاف پراپیگنڈا کرنا کہ یہ احمدی ہے اس کا بائیکاٹ کرو۔
شاگرد: ان حالات میں آپ کی کیا ذہنی کیفیت تھی؟
استاد: ذہنی کیفیت یہ تھی کہ دو منٹ میں صورت حال نے ماضی سے مستقبل تک سب کچھ دکھا دیا کہ کس طرح گھر والوں نے نہایت غربت میں گھر کے ایک ذہین بچے کو پڑھایا، اس کی حوصلہ افزائی کی، اس سے امیدیں باندھیں کہ یہ بچہ ڈاکٹر بن کر نہ صرف یہ کہ گھر والوں کی خدمت کرے گا بلکہ معاشرے کی بھی خدمت کرے گا اور پھر کس طرح اس بچے نے ایک ایک دن اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے گزارا اور دن رات محنت کر کے اچھے نمبر لے کر میرٹ پر ملک کے بہترین میڈیکل کالج میں جا کر ڈاکٹر بنا اور اب وہ اس حال میں ہے کہ چند غنڈے اسے اس کے عقیدے پر دھمکی دے رہے ہیں اور وہ اپنا مستقبل یہ دیکھ رہا ہے کہ اگر میں یہیں رہا تو شاید اس دنیا میں نہ رہ سکوں اور اگر یہاں سے اٹھ کر وطن کے کسی اور علاقے میں کلینک کھولوں تو وہاں بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملے گی اور ایک دن وہی گھر والے جو مجھے دوسروں کی جان بچانے کے لئے گھر سے روانہ کرتے تھے، میری لاش وصول کر رہے ہوں گے۔ تو یہ تھی ذہنی حالت اور اس وقت سوچا کہ اب یہاں نہیں رہنا۔ یہ تھا وہ لمحہ جس نے موت سے زندگی عطا کی۔
شاگرد: پھر آپ نے کیا کیا؟
استاد: ہم نے کہا کہ سبق پھر پڑھ ۔۔۔ اور میڈیکل کالج میں پڑھی ہوئی کتابیں دوبارہ اٹھائیں۔ ایک ایک کو ایسے پڑھا کہ جیسے زندگی میں آخری بار پڑھنا ہو اور انہیں پڑھتے بھی تھے اور پڑھاتے بھی تھے اور اس طرح پڑھنے پڑھانے کا کاروبار شروع کیا جس سے روزگار زندگی بھی چلا اور آگے نکلنے کی امید بھی پیدا ہوئی اور سوچا کہ اب دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں جا کر کام کریں گے اور دنیا کے ایک بہترین ملک میں ڈاکٹری کے لئے امتحان کی تیاری شروع کی صبح گھر سے نکلتے اور آدھی رات گھر کو لوٹتے اور پورا دن پڑھنے پڑھانے میں گزرتا جو پڑھتے وہ امیر گھرانوں کے میڈیکل سٹوڈنس کو پڑھا کر زندگی گزارنے کے لئے کچھ کماتے اور اسی پڑھائی سے باہر جانے کے لئے امتحان کی تیاری بھی کرتے جاتے۔ دل میں یہی ہوتا کہ دنیا کے بہترین ملک کا امتحان بہترین نمبروں سے پاس کرنا ہے اور پھر جب امتحان دینے کا وقت آیا تو نہایت اطمینان سے امتحان دینے گئے اور امتحان کو انجوائے کیا اور بہت اچھے نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور یہ یقین ہوگیا کہ ان نمبروں پر ضرور باہر کے ملک میں ٹریننگ کے لئے قبول کر لیا جائے گا اور کام مل جائے گا۔ ایسا ہی ہوا۔
شاگرد: سر اگر آج آپ اپنے وطن میں ہوتے تو کہاں ہوتے؟
استاد: قبر میں!
شاگرد: ایسا کیوں کہتے ہیں آپ؟ کیا آپ کے وطن میں احمدی ڈاکٹر کام نہیں کر رہے؟ اور کیا وہ سب قبر میں چلے گئے ہیں؟
استاد: جی بیٹا ان کا نصیب دو قسم کی قبریں ہے۔ اگر زندہ ہیں تو چھپ چھپا کر ایسی حالت میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں کسی کو پتہ نہ چل جائے کہ احمدی ہیں اور پھر جب پتہ چل جائے کہ وہ احمدی ہیں تو اب یہ اس معاشرے کی مرضی ہے کہ انہیں زمین میں مار کر دفن کریں یا کہ اسی طرح زندہ درگور رہنے دیں۔ یہ کہنا آسان ہے کہ دیکھیں وہاں سب احمدی زندہ ہیں۔ مارے تو نہیں گئے، لیکن ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اور کیا انہیں زندہ لاش بنا دیا گیا ہے؟ اس سب کا احساس ایک اکثریت والے کے لئے ذرا مشکل ہے۔ جب کسی کا پتہ چل جائے کہ فلاں احمدی ہے تو اس کے خلاف کیا معاشرتی ری ایکشن ہوتا ہے۔ اب وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
شاگرد: اگر آپ کو پتہ چلے کہ آپ کے وطن میں ایک نوجوان احمدی ڈاکٹر کو اس کے عقیدے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا ہے تو آپ کے کیا جذبات ہوتے ہیں؟
استاد: بیٹا دل خون کے آنسو روتا ہے اور میرا کسی سے بات کرنے کا دل نہیں کرتا اور میں خود کلامی کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ سوچ کہ آج تو وہاں ہوتا تو کیا ہوتا؟ تو بھی کب کا قتل ہو چکا ہوتا اور تیرے گھر والے آج کئی سال بعد ایک نوجوان احمدی ڈاکٹر کے قتل ہونے پر ایسا ہی محسوس کرتے جیسا انہوں نے میرے قتل ہونے پر کئی سال پہلے محسوس کیا ہوتا کہ آج ہمارا نہایت پیارا بیٹا جو گھر کا ذہین ترین بچہ تھا اور جس نے ساری زندگی محنت کی اور ڈاکٹر بنا، اسے آج ایک 15، 16 سال کے لڑکے نے آ کر قتل کر دیا تو بیٹا یہ صرف احمدی ہی نہیں بلکہ شیعوں کے ساتھ بھی ہوا ہے اور یہ دو ایسی برادریاں ہیں کہ جن کے ڈاکٹروں کو چن چن کر مارا گیا ہے اور کیوں کہ شیعہ برادری والے تعداد میں احمدیوں سے زیادہ ہیں لہٰذا شیعہ ڈاکٹر تعداد میں زیادہ قتل ہوئے ہیں اور جب بھی میرے وطن میں کسی احمدی یا شیعہ ڈاکٹر کا قتل ہوتا ہے تو اس دن میں ایسے ہی سمجھتا ہوں کہ آج میرا قتل ہوا ہے اور جیسے ایک مردہ کچھ نہیں کر سکتا، میں بھی کچھ نہیں کر سکتا اور یہ سب جاری ہے اور پتہ نہیں کب تک جاری رہے گا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہمیشہ جاری نہیں رہتا اور ظالم آخر مجرم بنا کر بااختیار مظلوموں کے سامنے کھڑے کیے جاتے ہیں اور یوسف اور اس کے بھائیوں کا قصہ دہرایا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آج یوسف پہ اگر وقت یہ لائے ہو تو کیا کل تمہیں تخت بھی دو گے اسی زندانی کو اور پھر جب وہی مظلوم مسیحا اپنے وطن میں بااختیار ہو جاتے ہیں اور ان کے ظالم بھائی ایمبولنس میں زندگی موت کی کشمکش میں ایمرجینسی میں لائے جاتے ہیں تو ان کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ ان پر رحم کھائیں اور ان کی زندگی بچائیں کہ انہوں نے زندگی بچانا ہی سیکھا ہوتا ہے۔