ضلع اپر چترال کے علاقہ جونالی کوچ کے بیسیوں باشندوں نے اپنے حق کیلئے ایک پر امن احتجاج اور بعد ازاں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ علاقے کے عمائدین نے کہا کہ گلگلت بلتستان کے سابق گورنر پیر کرم علی شاہ کے والد جمال علی شاہ نے ریاست چترال کے سابق حکمران مہتر چترال سے براستہ چترال ریاست دیر جانے کیلئے راہداری مانگی تھی جسے یہ راہداری مہتر چترال نے فراہم کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ راہداری کے نمبر کو سابق گورنر پیر کرم علی شاہ نے دو مرتبہ ٹیمپرنگ کرتے ہوئے اس کے ذریعے دھوکہ دہی کرنے کی کوشش کی اور اس کے ذریعے جعلی اسناد پیش کرتے ہوئے ہزاروں ایکڑ زمین پر قابض ہوئے۔انہوں نے کہا کہ پیر کرم علی شاہ کے بیٹے نے جوڈیشل کونسل ڈپٹی کمشنر چترال کے محافظ خانہ میں ایک جعلی کاغذ رکھ کر اس کی نقل لیکر اس کے ذریعے جونالی کوچ میں زمین اپنے نام کروائی۔جب اس پر ڈپٹی کمشنر لوئیر چترال نے انکوائری کروائی تو وہ سند جعلی ثابت ہوئی اور اس میں محافظ خانہ کا ریکارڈ کیپر شیر احمد اور اسکے سہولت کار محمد علی شاہ کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرکے ا ن کو عدالت سے سزا بھی ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیر کرم علی شاہ نے دوسری مرتبہ آرکائیو لائبریری پشاور میں بھی اس قسم کی ٹیمپرنگ یعنی دھوکہ دہی کی کوشش کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پیر کرم علی شاہ نے آرکائیو لایبریری کے ایک سند پر اس وقت کے چیف لائبریرین شاہ مراد جو چترال کا باشندہ تھا اس سے تصدیق کروا کے پہلی سند کی طرح چترال کے لینڈ سٹلمنٹ آفیسر یعنی افسر مال کے دفتر میں جمع کرکے اس کے ذریعے 85000 کنال زمین اپنے نام درج کروایا۔شوکت علی، دیدار احمد وغیرہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس وقت چترال سے منتحب رکن صوبائی اسمبلی پر لوگ شک کرتے ہیں کہ اس نے آرکائیو لائبریری سے اس جعلی سند پیر کرم علی شاہ کو حوالہ کرنے میں مدد کی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس سند کو بھی پیر کرم علی شاہ کے ایک رشتہ دار سید اکبر حسین شاہ نے عدالت میں چیلنج کیا جب آرکائیور لائبریر ی سے رابطہ کیا گیا تو ان کے پاس اس سند کی اصل موجود نہیں تھی اور اس سے ثابت ہوا کہ پیر کرم علی شاہ نے جو سند پیش کی وہ جعلی تھی۔
ان عمائدین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پیر کرم علی شاہ چونکہ اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء تھے اس نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے لینڈ سٹلمنٹ افسر کے ذریعے یہ تحریر کروایا کہ یہ زمین ان کو قوم خوشامدے کے بزرگوں نے وقتاً فوقتاً یہ زمین تحفہ میں دیا ہے۔ ان لوگوں کا موقف ہے کہ اس افسر نے بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے اور جس طرح پیر کرم علی شاہ کی پہلی دو سند جعلی ثابت ہوئیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم خوشامدے والی سند بھی جعلی ہوگی۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پیر کرم علی شاہ نے پہلے 85000 ہزار کنال زمین اپنے نام کروائی تھی۔جس کی سند جعلی ثابت ہونے پر 1100 کنال رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ بقایا زمین کی سند کو بھی پشاور ہائی کورٹ کے سوات دارلالقضاء بنچ میں چیلج کیا گیا اور اس کے بعد اس کے پاس 561 کنال زمین رہ گئی۔ تاہم سابق لینڈ سٹلمنٹ افسر نے اس کے کھاتہ کتونی میں 391 کنال زمین ڈوکن شال اور پولش گاز میں رہنے دیا جو غلط ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم 54گھرانے ہیں مگر بے بس ہونے کی ناطے پیر کرم علی شاہ نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ چرون کے حکیم نے جب قوم خوشامدے کے بارے میں جب غلط قسم کا تحریر پیش کیا تھا تو اس وقت کے حکمران یعنی مہتر چترال نے چرون کے حکیم کو اپنے عہدے سے 1932 میں معزول کیا تھا۔مگر 1948 میں وہ دوبارہ آکر پیر کرم علی شاہ کے خاندان سے مل کر ہماری زمین پر قبضہ جمایا اور چند لوگوں کو بھی زمین کی لالچ دیکر ان کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ ان متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان اور اعلےٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ اس سلسلے میں جوڈیشل انکوائیری کی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور جن سرکاری افسران اور اہلکاروں نے پیر کرم علی شاہ کے ساتھ تعاون کرکے ان کو جعلی اسناد فراہم کی ہیں یا ان جعلی سندوں کے ذریعے اربو ں روپے کی زمین ان کے نام درج یا رجسٹری کرائی ہے ان کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔ان متاثرین کی نمائندگی کرتے ہوئے شوکت علی، علی احمد، محمد علی اور ہیبت علی وغیرہ نے کہا کہ اگر کوئی غیر جانبدار، ایماندار افسر اس کی انکوایری کرے تو ہم اپنے حق میں تمام ثبوت اور اسناد پیش کرسکتے ہیں۔
ہمارے نمائندے نے ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر سے بھی ان متاثرین کے ہمراہ ان کے دفتر میں جاکر اس کیس کی اصل حقیقت جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا حال ہی میں یہاں تبادلہ ہوا ہے انہیں اس کیس کے بابت زیادہ معلومات نہیں ہے تاہم انہوں نے متاثرہ لوگوں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کو تحریری درخواست دے اور اس کے ساتھ تمام دستاویزات ثبوت کے طور پر لگائے تو وہ اس کے بارے میں متعلقہ اداروں سے معلومات لیکر اس پر کارروائی کریں گے۔
ہمارے نمائندے نے صحافتی اقدار اور اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے دوسرے فریق کا بھی موقف جاننے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں پیر کرم علی شاہ کے بیٹے جلال علی شاہ سے رابطہ کرکے ان کا موقف لینا چاہا جس پر اس کے مختار خاص حیات حسین سے ان کے دفتر جو بونی میں واقع ہے جاکر ان سے معلومات حاصل کی۔ان کے ساتھ کوثر علی شاہ، روزگار ولی شاہ، سیدحسین شاہ بھی موجود تھے۔حیات حسین شاہ نے کہا کہ پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ہمارا 2019 میں معاہدہ ہوا۔اس وقت اس کے مختار خاص سید باچا تھے جن ذریعے پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ہمارا معاملہ طے پایا گیا۔اس وقت ابراہیم پیر زادہ اور برہان شاہ ایڈوکیٹ ہمارے مقابلے پر آکر انہوں نے ہماری محالفت کی۔حیات حسین نے بھی الزام لگایا کہ جوڈیشل کونسل ڈپٹی کمشنر لوئیر چترال میں وہ جعلی سند ابراہیم پیر زادہ اور برہان شاہ کی سازش کے تحت وہاں رکھا گیا اور بعد میں برآمد کراکر پیر کرم علی شاہ کے بیٹے کو بدنام کیا گیا۔اس وقت پیر کرم علی شاہ کے ساتھ ان کے ایک رشتہ دار اکبر حسین شاہ کا میراث کا کیس چل رہا تھا۔ اکبر حسین نے جولائی 2019کو ہمارے حلاف کیس کیا جو سول جج صاحب چترال کے عدالت میں ابھی تک چل رہا ہے۔ جبکہ برہان شاہ اور ابراہیم پیرزادہ کا کیس بستہ خاموشی میں چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جونالی کوچ کے اہلیان نے بیس اکتوبر2019 کو دارالقضاء سوات میں کیس کیا کہ پیر کرم علی شاہ اور قبضہ مافیا نے قاقلشت کے مقام پر 73000 کنال زمین پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔
اس وقت وہاں پیر کرم علی شاہ وغیرہ گھر بنارہے تھے تو محالف فریق کو عدالت سے حکم امتناعی مل گئی۔15 جون 2020 تک یہ حکم امتناعی برقرار رہا اس کے بعد ختم ہوا اور اکیس، بائس پیشیوں کے بعد پیر کرم علی شاہ کے نام 782 کنال زمین رہ گئی جبکہ قاقلشٹ میں 84000 کنال زمین ہے۔پشاور ہائی کورٹ کے سوات بنچ یعنی دارلاقضاء سوات میں جو کیس دائیر کیا گیا تھا اس میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ، چیف سیکرٹری، ایس ایم بی آر، سیکرٹری مالیات، ہوم سیکرٹری،ضلعی انتظامیہ اور ہمارے خلاف بھی کیس دائر کیاگیا۔جس پر دارلقضاء نے ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ طلب کی جس پر اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر نے افسر مال وغیرہ سے معلومات لیکر جواب دیا کہ قاقلشٹ میں 80000 کنال بنجر زمین پڑی ہے جس میں ایک ہزار کنال زمین سرکاری یعنی صوبائی حکومت کی ہے۔
جب سیلاب کی وجہ سے چند لوگوں کا گھر تباہ ہوا تھا تو انہوں نے قاقلشٹ میں گھر بنا یا تھا۔ اس کے بعد ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے ڈوکان شال میں 561کنال 16 مرلہ زمین پیر کرم علی شاہ کی ملکیت تسلیم کی۔اور یوں ہمیں 782 کنال زمین سٹلمنٹ آفیسر نے دیا۔ اس میں سے 166 کنال زمین منہٰی کردی جو غیر ممکن پہاڑی ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ جب پیر کرم علی شاہ کے پاس اصل سند موجود تھا تو ان کو کیا ضرورت تھی کہ جوڈیشل کونسل ڈپٹی کمشنر کے محافظ خانہ سے ایک جعلی سند کو منسوب کرائی جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ برہان شاہ ایڈوکیٹ نے رکوائی تاکہ پیر کرم علی شاہ کو بدنام کیا جائے مگر اس سند پر پیر کرم علی شاہ کے نام جو زمین درج یا رجسٹری ہوئی اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے جونالی کوچ میں احتجاج اور پریس کانفرنس کیا وہ وہاں کے اصل باشندے نہیں ہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے آکر آباد ہوئے ہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ پیر کرم علی شاہ کے گھر تین قسم کے لوگ خدمات سرانجام دیتے ہیں ایک خلیفہ جو نکاح اور خطبہ وغیرہ کراتے ہیں۔ دوسرا میری شکاران جو پیر صاحب کیلئے شکار کرتے ہیں اور تیسرا سرکار یہ لوگ پیر صاحب کے لئےکھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کیلئے اناج اکھٹا کرتے ہیں۔
ان خدمت کرنے والوں کو غفور شاہ کے والد مرحوم نے 11 چکورم یعنی ساڑھے پانچ ایکڑ زمین دی تھی ۔ یہاں اے کے آر ایس پی نے پانی کیلئے ایک نہر بھی بنائی ہے۔1984 میں شاہ ملات دیہہ کے بابت خاندان کبیر سلطان، صلا ح الدین،مرزا گل نے پیر کرم علی شاہ کے نام سے سڑک کا معاوضہ بھی لیا تھا۔ دس اکتوبر 2002 کو فاضل جج صاحب امجد حسین ایڈیشنل سیشن جج چترال نے فیصلہ سناتے ہوئے ان کے مقدمے کوخارج کر دیا۔ جو اہلیان جونالی کوچ بنام پیر کرم علی شاہ کے نام سے درج ہوا تھا۔
حیات حسین نے کہا کہ یہ زمین اب میرے نام پر رجسٹری ہوا ہے اور میں نے پیر کرم علی شاہ کے بیٹے جلال علی شاہ کو ایک کروڑ روپے ادا کئے ہیں جو دس جون 2021 کو میرے نام پر رجسٹر ی ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیر صاحب کے خلیفہ گان تین سو سال سے یہاں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پیر کرم علی شاہ کے پاس قبرستان مانگنے آئے تھے۔تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ پیر کرم علی شاہ نے آرکائیو لائبریری پشاور سے کیوں ایک جعلی سند پیش کی تھی۔ اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے اس وقت پشاور جاکر آرکائیو لایبریر ی کے ڈائیریکٹر ظہیر اللہ خان سے باقاعدہ مل کر ان کا موقف لینے کی کوشش کی۔ان سے جب پوچھا گیا کہ اس لائبریری کے ریکارڈ میں صفحہ نمبر 8،بنڈل نمبر 22 سیریل نمبر 224میں جو ایک کاغذ پیر کرم علی شاہ نے پیش کیا ہے اس کی اصل سند دکھائی تو ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے اس سند کی اصل یعنی اوریجنل یہاں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں چترال سے تعلق رکھنے والے ایک چیف لائبریرین تھا شاہ مراد خان یا تو انہوں نے کسی چترالی پر بھروسہ کرتے ہوئے وہ اصل سند اس کو فوٹو سٹیٹ کرنے کیلئے دی تھی جسے چرایا گیا یا پھر اس نے اس چترال کے درخواست کنندہ پر اعتماد کرتے ہوئے غلطی سے ایک جعلی سند کو اٹیسٹ کر کے اس کے اصل ہونے کی تصدیق کی۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس ریکارڈ کی ذمہ داری کس کی ہے تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس کی ذمہ داری ہماری ہے۔ مگر ہمارے ایک افسر سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ اس نے بغیر تصدیق کئے ایک جعلی سند کو اٹیسٹ کر دیا۔
ہمارے نمائندے نے اس رپورٹ کی شفافیت کیلئے ایک بار پھر پشاور رابطہ کرکے آرکائیو لائبریری کی ڈایریکٹر میڈم راحیلہ حفیظ سے رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ اس سند کا اصل اس لائبریری میں موجود ہے تو جواب نفی میں ملا۔ ان سے جب مزید پوچھا گیا کہ اس لائبریری کے کیا اصول ضوابط ہیں کسی سند کی تصدیق یعنی اٹیسٹیشن کیسے کی جاتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے باقاعدہ ریسرچ آفیسر مقرر ہے اگر وہ موجود نہ تو پھر اس صورت میں ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ اس سند کو اٹیسٹ کر سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شاہ مراد چونکہ چیف لایبریرین تھے اور قانون کے مطابق وہ کسی سند کی تصدیق کرنے کے مجاز نہیں تھے اگر انہوں نے اس جعلی سند پر مہر تصدیق ثبت کی ہے تو انہوں نے غلط کیا ہے۔ ان سے بھی ان کا موقف لینے کیلئے کہا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ پہلے سابقہ ڈائریکٹر اور سابقہ چیف لائبریرین جو ملازمت سے ریٹائر ہوچکے ہیں ان سے پوچھ کر جواب دے سکیں گی۔
اس سلسلے میں چترال کے محکمہ مالیات کے ایک سابقہ افسر سے بھی پوچھا گیا جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیر کرم علی شاہ نہایت لالچ کرتے تھے اور انہوں نے جعلی سند کے ذریعے تین سو کنال سے زیادہ سرکاری زمین بھی اپنے نام درج کروائی ہے جو سراسر زیادتی ہے قاقلشٹ اور جونالی کوچ کی زمین پر دو فریقوں کے درمیان جھگڑا پنی جگہہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جوڈیشل کونسل چترال اور آرکائیو لائبریری پشاور کے اہلکاروں نے کیوں ایک جعلی سند پر دستحط کرکے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کی اس کے بدلے ان کو کتنا معاوضہ ملا ان سوالوں کے جواب یا تو ان افسران اور اہلکاروں کے پاس ہیں یا پھر کسی کے پاس بھی نہیں ہیں۔سیاسی اور سماجی طبقہ فکر عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے معزز چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم پاکستان اور ارباب احتیار سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بابت غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے اور جو اہلکار اس میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی افسر یا ملازم سرکاری ریکارڈ میں گڑ بڑ کرنے کی جرات نہ کرسکے۔