ضلع لورالائی بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جس کو نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اس علاقے میں کھیلوں سے پیار کرنے والی اقوام آباد ہیں جہاں نہ صرف کرکٹ بلکہ فٹ بال، باکسنگ و دیگر کھیلوں میں بھی علاقے کے لوگ گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ ضلع لورالائی میں فٹ بال کے 38 کلبز رجسٹرڈ ہیں جبکہ کرکٹ کی شروعات 1978 سے ہوئی ہے۔ اس وقت صرف 2 کرکٹ کلبز رجسٹرڈ تھے جب کہ اب پاکستان کرکٹ بورڈ میں لورالائی کے 15 کرکٹ کلبز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ جس پر نہ صرف صوبائی حکام بلکہ کور کمانڈر سدرن کمانڈ، آئی جی ایف سی سمیت دیگر حکام بھی بارہا فخر کا اظہار کر چکے ہیں کہ بلوچستان اور بالخصوص ضلع لورالائی میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور لورالائی کے جوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ضلع لورالائی کا نام نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر بھی روشن کریں۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی وہ مملکت خداداد کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ پاکستان کے کل 43 فیصد رقبے پر مشتمل صوبہ بلوچستان کا نوجوان طبقہ آج بھی بنیادی سہولیات تعلیم، کھیل اور صحت سے محروم ہیں۔ بلوچستان میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاوہ کہیں بھی ایسا کوئی قومی سطح کا فٹ بال، کرکٹ، ہاکی، باکسنگ کلب کے لئے گراؤنڈز موجود نہیں جہاں یہاں کے ٹیلنٹڈ کھلاڑی اپنے بہترین کھیل کامظاہرہ پیش کر سکیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایوب سٹیڈیم میں موجود کرکٹ، فٹ بال و دیگر کے علاوہ صوبے کے کسی بھی ضلع میں کھیل کا میدان نہیں ہے۔
اگر ہم بات لورالائی کی کریں تو فٹ بال اور کرکٹ گراؤنڈز اور دیگر بنیادی ضروریات نہ ہونے کی وجہ سے ٹیلنٹ سے بھرپور کھلاڑی مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جو ٹیلنٹڈ کھلاڑی ہیں وہ غربت کی وجہ سے کھیل چھوڑ کر محنت مزدوری میں مصروف ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا ٹیلنٹ بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اقتدار میں آنے سے قبل وعدے تو کرتی ہے لیکن کوئی بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا۔ کھیلوں کے میدان کے نام پر بھی وعدے ہوئے لیکن کسی بھی منتخب نمائندے نے ان کو پورا کرنے کی زحمت نہیں کی۔
ضلع لورالائی نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر فٹ بال کے لئے بہت سارے نامور کھلاڑی دے چکا ہے۔ کھیلوں سے پیار کرنے والے حبیب صابر کہتے ہیں کہ ضلع لورالائی میں 38 رجسٹرڈ فٹ بال ٹیمیں ہیں جنہوں نے صوبائی و قومی سطح پر ہونے والے ٹورنامنٹس کو مایہ ناز فٹ بالرز دیے ہیں جن میں فیروز عرف گوگا کا نام پہلے جبکہ جانان، کلو بلوچ، عزیز ہزارہ حبیب، نصراللہ وہ کھلاڑی ہیں جوضلع لورالائی کی صوبائی و قومی سطح پر نمائندگی کر رہے ہیں۔
چند دہائیوں سے فٹبال کا اپنا گراؤنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑی ڈگری کالج اور گورنمنٹ ہائی سکول کے فٹبال گراؤنڈز میں کھیل رہیں ہے۔ مگر اب پچھلی حکومت کے تعاون سے فٹبال کے لئے عوامی گراؤنڈ تو بنایا گیا لیکن آج تک نامکمل ہے۔ نہ گراس ہے اور نہ چاردیواری جس کی وجہ سے گراؤنڈ کی حالت خراب ہو چکی ہے۔
سلطان محمود بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے قومی کرکٹ میں ضلع کی طرف سے بطور امپائر نمائندگی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ضلع میں 1978 میں کرکٹ شروع ہوئی۔ اس وقت صرف دو ٹیمیں رجسٹرڈ تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور اب تقریباً 30 کلبز رجسٹرڈ ہیں اورپاکستان کرکٹ بورڈ میں پہلے لورالائی کے 9 کلبز کو حق رائے دہی حاصل تھا جبکہ اب 15 کلبز ووٹ کا حق رکھتے ہیں۔
صوبے سے نکلنے والے اخبارات ضلع لورالائی کے ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کو آگے آنے اور انہیں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں مدد دے سکت ہیں کیونکہ آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ٹی وی کی سہولت موجود نہیں تو وہاں کے لوگ اخبارات سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضلع لورالائی کے لوگ آج بھی اکثریت میں اخبارات سے استفادہ کرتے ہیں اور حکام بالا کو اپنے مسائل اخبارات ہی کے ذریعے پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بلوچستان سے نکلنے والے مقامی اخبارات کو چاہیے کہ وہ ضلع لورالائی اور بلوچستان میں کھیلوں کے فروغ کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ یہاں کے ٹیلنٹ کو پاکستانی قوم اور کھیلوں کے شوقین افراد کے سامنے اجاگر کیا جا سکے کیونکہ انہیں بھی حق ہے کہ اپنے ملک اور صوبے کانام روشن کریں۔
اگر صحیح معنوں میں اخبارات اور یہاں کا میڈیا کھیلوں کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرے تو ضلع لورالائی کے کھلاڑی نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوا کر ضلع کا نام صوبے اور ملکی سطح پر روشن کر سکتے ہیں اور امید ہے کہ اخبارات کے مدیران ضلع لورالائی میں کھیل کے فروغ اور یہاں کے ٹیلنٹ رکھنے والے کھلاڑیوں کو بھرپور کوریج دیں گے۔ اخبارات کی مدد سے کھیلوں کے سیکشن یا کھیلوں کے صفحات کے ذریعے علاقائی کھیلوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔