نواز شریف کا جیل سے باہر آنا مسلم لیگ ن کے لئے ایک نئی زندگی

نواز شریف کا جیل سے باہر آنا مسلم لیگ ن کے لئے ایک نئی زندگی
بالآخر تمام تر تجزیات اور خدشات کو غلط ثابت کرتے ہوئے عام انتخابات 2018 ہو گئے، نئی حکومت بھی بن گئی اور عمران خان وزیراعظم بنا دیے گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ کوٸی سازش نہیں ہو رہی، عام انتخابات وقت پر ہونگے اور وہی ہوا۔

دوسری جانب کے لوگ کہتے ہیں کہ جس وقت ہم یہ بات کہتے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے ہم اس وقت کی صورت حال کا تجزیہ کر رہے تھے بعد میں غیر متوقع طور نواز شریف کو الیکشن سے پہلے جیل بھیج کر اور ایم کیو ایم اور پی پی پی کے بیانیے کی غیر متوقع تبدیلی نے صورت حال کو جب بدلا تو پھر تجزیہ بھی بدلنا فطری بات ہے۔

انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کے لئے مشکل وقت

جب لوگ خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے، اس وقت کی صورت حال یہی بتاتی تھی کہ بلوچستان اور کے پی کے کچھ علاقوں کو چھوڑ کر باقی تمام ملک میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی حامل جماعتیں اییکشن جیتنے کی پوزیشن میں تھیں مثلاً کراچی سے ایم کیوایم، سندھ سے پی پی پی، پنجاب سے ن لیگ، کے پی میں بھی ایم ایم اے، اے این پی اور مسلم لیگ ن اچھی پوزیشن میں تھیں۔ اگر ایسی صورت میں الیکشن ہو جاتا تو پوری دنیا میں ایک پیغام جاتا کہ پاکستان کے عوام اور مقتدر حلقوں میں فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ ویسے تو 2013 میں بھی یہی پارٹیاں کامیاب ہوٸی تھیں لیکن اس وقت بیانیے کا فرق بہت واضح تھا۔ 2013 کے بعد سے ایم کیوایم، پی پی پی اور ن لیگ تینوں پارٹیاں مقتدر حلقوں کے عتاب کا شکار رہیں؛ بعد میں زرداری صاحب نے مقتدر حلقوں کا موڈ بھانپتے ہوئے اپنا بیانیہ بھی بدلا اور ن لیگ سے دوری بھی اختیار کر لی تو ان کی پارٹی الیکشن میں کسی بھی نقصان سے محفوظ رہی۔ ایم کیوایم نے بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہنے والے سربراہ (فاروق ستار) کہ سیاسی انجینٸرنگ نہیں چلے گی کو ہٹانے میں ہی عافیت جانی اور مکمل صفایا ہونے سے بچ گئی۔ ان دونوں پارٹیوں نے بھانپ لیا تھا کہ اس بیانیے کی کوٸی جگہ نہیں، لہٰذا بیانیہ تبدیل ہو گیا۔ رضا ربانی کی جگہ سنجرانی کو چیٸرمین سینٹ لگانا اور احتساب بل میں ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب کرنے کی بات سے پیچھے ہٹنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بیانیہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر بدلا گیا۔ دوسری جانب چوہدری نثار اور شہباز شریف بھی نواز شریف کو یہ سمجھاتے رہے کہ آپ مقتدر حلقوں کے خلاف بیانیہ نہ لیں، اس سے آپ کے ریلیف ملنے کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجاٸیں گے لیکن نواز شریف نہ مانے اور ڈٹے رہے۔ شاید ان کے پاس کوٸی اور آپشن بھی نہیں تھا کیونکہ ان کو سسٹم سے نکالا جا چکا تھا اور وزیراعظم بننے کا شوق بھی تین مرتبہ پورا ہو چکا تھا اور شاید نااہلی کے بعد نواز شریف صاحب یہ بھی بھانپ چکے تھے کہ مرکزمیں اب پی ٹی آٸی کو لانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور بغیر پنجاب کے مرکز میں پی ٹی آٸی کو لانے کا کوٸی مقصد نہیں، اس لٸے بیانیہ بدلنے کے باوجود بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے وہ ہار ماننے کو تیار نہ تھے اور لڑتے ہوے شہید ہونا چاہتے تھے، سو انہوں نے یہی کیا۔ لیکن شہباز شریف کو یہ اجازت دے دی کہ وہ چاہیں تو اپنی خواہش کے مطابق بیانیہ اپناٸیں۔ شہباز شریف کا خیال تھا کہ محض بیانیہ بدل لینے سے ہی جان خلاصی ہوجائے گی اور پنجاب پر حکمرانی برقرار رہے گی لیکن شاید اسٹیبلشمنٹ کی توقعات کچھ زیادہ تھیں۔ شاید مسلم لیگ (ش) تک جیسا کہ ایم کیو ایم کے معاملے میں ایم کیو ایم پاکستان بنی۔ ساتھ ہی ن لیگ کی یہ حکمت عملی بھی تھی کہ دونوں بھاٸیوں کا اگر بیانیہ ایک ہوگا تو انجام بھی ایک ہوگا اور پھر پارٹی 1999 کی طرح بڑی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی، اس لئے ایک بھاٸی کا جیل سے باہر رہنا ضروری ہے۔ شہباز شریف کا مختلف بیانیہ ن لیگ کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس میں نواز شریف کی رضامندی بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ نواز کے لئے نواز لازم و ملزوم

اب صورت حال یہ ہے کہ شہباز شریف اب بھی نواز شریف کا بیانیہ نہیں اپنا رہے اور کارکنوں کی تنقید کی زد میں ہیں اور اگر بیانیہ اپناتے ہیں تو نیب ان کو بھی جیل بھیجنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ ادھر عمران خان نے اپنے پتے بہت خوبصورتی سے کھیلے ہیں۔ انہوں نے ن لیگ کے اسمبلی میں احتجاج کے بعد جارحانہ تقریر کر کے عوام میں یہ تاثر دے دیا ہے کہ یہ جو احتجاج ہے، یہ میرے متوقع کرپشن کے خلاف اقدامات کے ڈر سے ہے اور پھر انہوں نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی مریم نواز اور نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال کر اس تاثر کو عوام میں اور مضبوط کر دیا ہے کہ اب شہباز شریف جتنا بھی وقت عمران خان کو دیں گے عمران خان کرپشن کے بیانیے کو مضبوط کرتے جاٸیں گے اور ویسے بھی پاکستان کی عوام کو ہٹلر کی کہانیاں اور چین میں کرپٹ لوگوں کی پھانسی کی داستانیں بہت پسند ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے پی ٹی وی سے سیاسی سنسر شپ ہٹانے کا اعلان کر کے اس حقیقت پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کا پرائیویٹ میڈیا بھی اسی قسم کی سنسر شپ کا شکار ہے۔ لہٰذا نواز شریف کا واپس آنا مسلم لیگ نواز کے لئے اس وقت ایک نئی life line ہے جس کے بغیر اس کا سیاست میں قدم جمائے رکھنا ناممکن دکھ رہا تھا۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔