پاکستانی سینما کی بحالی کا خواب کیسے پورا ہو؟

پاکستانی سینما کی بحالی کا خواب کیسے پورا ہو؟
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وزارت ثقافت کا ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی فلموں کی بحالی اور انکو پرموٹ کرنے کے حوالے سے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور پاکستانی سلور اسکرین کو بھرپور تعاون کرنے کی یقین دہائی کرائی گئی ہے۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد اداکار شان نے ٹوئٹر پر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں 5 بڑے فلمی مراکز تھے ،ممبئی،چنائے،کولکتہ،حیدرآباد دکن،اور لاہور آج سوائے لاہور کے تمام فلمی مراکز آباد ہیں بلکہ بھارت میں تو اب بنگلور اور چندی گڑھ میں بھی فلمساز متحرک ہیں۔

ہم نے لاہور کے علاوہ کراچی اور ڈھاکہ کے فلمی مرکز آباد کیے۔ مگر اب ڈھاکہ ہمارے ساتھ نہیں لاہور کا روایتی فلمی مرکز حکومتی عدم توجہی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے باعث بند ہو گیا۔ کراچی کے کچھ پڑھے لکھے نوجوانوں نے اپنی ہمت اور لگن کے باعث فلمی مرکز آباد کر دیا ہے۔ کراچی فلمسازی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک آیڈیل شہر ہے، ہمارا المیہ ہے ہم نے 73 سالوں میں فنون لطیفہ کی کسی اصناف کے حوالے سے سنجیدہ بات کی ہی نہیں۔

شتر بے مہار نوکر شاہی نے ثفاتی پالیسی بنائی ہی نہیں اور فلم ٹی وی،تھیٹر ،کو کبھی پرموٹ کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ کراچی شہر میں ایک وقت میں 100 سینما گھر تھے لاھور میں 60 کے قریب تھے مگر سب ٹوٹتے گئے۔ سیاست دانوں نے مذہبی طبقہ کو تو خوب پرموٹ کیا مگر کبھی فنون لطیفہ کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ،جب عسکری حکومتیں بنی تب بھی ثفافت انکی ترجیع نہیں رہی ،یوں ہماری فلم انڈسٹری لاھور میں خودرو پودے کی طرح بڑھتی گئی۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پڑھ غیر نصابی سرگرمیوں کے حامل افراد نگار خانوں میں داخل ہو گہے جن کے اہداف فلم سے زیادہ فلمی اداکارہ سے تعلقات استوار کرنا ہوتے تھے آج لاہور کے فلمی صنعت کی تباہی سب کے سامنے ہے ،بھارت میں اس وقت 10 سے زائد زبانوں میں فلمیں بن رہی ہیں ہمارے ہاں بھی تین زبانوں اردو ،پنجابی،پشتو،زبانوں میں مسلسل فلمیں بنتی رہی ہیں، اس وقت حکومت پاکستان کو تین چار بڑے اقدامات کرنے ہوں گے سب سے پہلے ایک فلم انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں لایا جائے کراچی فلمسازی کے حوالے سے سب سے ائیڈیل شہر ہے وہاں سیکڑوں کی تعداد میں فلمیں اور ڈرامے عکس بندی کے مراحل میں ہیں ،وہاں ایک جدید فلم سٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

سب سے پہلے اردو فلموں کی حوصلہ افزائی کی جائے ،جب اردو سنیما مستحکم ہو جائے پھر پنجابی اور پشتو زبان کی فلموں کو پرموٹ کیا جائے لاہور کے روایتی فلمی صنعت کی بحالی کی جائے اردو اور پنجابی فلموں کے حالات سازگار بنائے جائیں۔ پشاور میں فلم میکرز کے لیے جدید سٹوڈیو بنایا جائے ،ان تنیوں شہروں میں فلمسازی کرنے والوں کو مراعات دی جائیں  پہلے سال دی جائیں ،سنمیا انڈسٹری کو مراعات دیں جدید سنیما گھر بناہیں جائیں اور بچ جانے والے سنیما گھروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائیں ،آنے والے تین سالوں میں یہ سب کام پرعمل درآمد یقنیی بنائیں ہماری فلم انڈسٹری بحران سے نکل آئے گی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔