پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے قائد نواز شریف نے پارٹی اجلاس سے آن لائن خطاب میں کہا ہے کہ دنیا کہہ رہی ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت میئر اسلام آباد کی بھی نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کا اعلیٰ اور مقدم ترین عہدہ ہے۔ اس عہدے کی اتنی بے توقیری کیوں ہو چکی ہے؟ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ اس لئے ہوا ہے کہ 70 سال کے تسلسل میں وزیر اعظم ہاؤس کو ہی فتح کیا گیا ہے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ انشااللہ، عمران خان تمہیں کیا پتا کل کیا ہو گا؟ تمھارے لانے والوں کو کیا پتا کل کیا ہونے والا ہے؟ یہ سب کچھ بدل جائے گا۔
سابق وزیر اعظم نے یہ تقریر مسلم لیگ ن پنجاب کے زیر اہتمام ملتان ڈویژن کی میٹنگ میں کی۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف اس وقت اپنی جماعت کی تنظیموں کو متحرک کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک دھکا پورے زور سے لگائے بغیر اس صورتحال سے نمٹا نہیں جا سکتا۔ اسی لئے وہ مختلف شہروں میں پارٹی کارکنان اور عہدیداروں سے اس وقت خطابات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پارٹی ذرائع کے مطابق نواز شریف صاحب جلد ہی مسلم لیگ ن کے سینیئر اراکین کا ایک اجلاس لندن میں بھی بلانے والے ہیں۔ پاکستان اب چونکہ برطانیہ کی ٹریول ریڈ لسٹ سے باہر آ چکا ہے اور ملک میں بھی سیاسی سرگرمیوں کے لئے موسم موافق ہے، نواز شریف کا خیال ہے کہ اگلے چند ماہ جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومتی اتحاد پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔
اسی اثنا میں منگل کی شام دنیا نیوز کے لندن سے بیرور چیف اظہر جاوید نے یہ خبر بھی بریک کی ہے کہ حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے اتحادیوں میں سے 20 افراد نواز شریف کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اظہر جاوید سے جب دنیا نیوز کے پروگرام آن دا فرنٹ کے میزبان کامران شاہد نے پوچھا کہ ان میں کون کون لوگ شامل ہیں تو اظہر جاوید کا کہنا تھا کہ ان میں پی ٹی آئی کا کوئی نظریاتی کارکن نہیں لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے 20 عدد ایسے افراد جو ہر چند سالوں کے بعد کسی نئی پارٹی سے انتخاب لڑتے ہیں، نواز شریف کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
یاد رہے کہ نواز شریف نے یہ گرما گرم تقاریر اور جماعت کی تنظیم سازی کا سلسلہ ایک ایسے موقع پر شروع کیا ہے جب امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان پر معاشی دباؤ بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں، چین سی پیک کی سست رفتاری سے نالاں ہے جب کہ بارڈر پر طالبان آ بیٹھے ہیں جو کہ ملک میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ انتشار کی کیفیت کو بھی بڑھاوا دینے والی ڈویلپمنٹ ہے۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ مستقبل میں یہ معاشی مشکلات حکومت کے لئے شدید مصائب پیدا کر سکتی ہیں اور وہ اسے ایک اہم موقع گردان رہے ہیں۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اگلے سال تین بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں جن میں سے ایک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت کے بعد نئے آرمی چیف کے حوالے سے ہوگی جب کہ جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کی صورت میں تین سال میں پہلی بار کوئی ایسا چیف جسٹس سپریم کورٹ میں موجود ہوگا جو نواز شریف کے پانامہ کیس کے بنچ میں شامل نہیں تھا۔ اور تیسری تبدیلی ملک میں سیاسی ہو سکتی ہے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ خود وزیر اعظم عمران خان بھی 2022 میں انتخابات کروانا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان تین بڑی تبدیلیوں میں بھی نواز شریف اپنے لئے کوئی اوپننگ دیکھ رہے ہیں۔
نواز شریف نے مزید کیا کہا؟
نواز شریف نے کہا کہ میں نے آج تک کوئی سرکاری پلاٹ نہیں لیا، پرمٹ نہیں لیا، کوئی ڈیوٹی فری گاڑی کبھی نہیں منگوائی۔ عمران خان تم کہتے ہو کہ تحائف کی تفصیل دینے سے ملکی وقار مجروح ہوتا ہے، تم چور ہو۔ ایف آئی اے اور نیب کو عمران خان پر مقدمہ کرنا چاہیے کیوں کہ بہت بڑے چور ہو تم۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1440337730097930243
نواز شریف نے مزید کہا کہا انشااللہ، عمران خان تمہیں کیا پتا کل کیا ہو گا؟ تمھارے لانے والوں کو کیا پتا کل کیا ہونے والا ہے؟ یہ سب کچھ بدل جائے گا۔ قرآن میں لکھا ہے کہ ظلم کے سامنے حق کی بات کہنے والوں کے ساتھ خدا بھی ہوتا ہے۔
https://twitter.com/RashidNasrulah/status/1440320041329692679
نواز شریف کے بیان کا پس منظر
کچھ روز قبل سی این این پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں ماہر سیاسی امور جنوبی ایشیا اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھانے والی تجزیہ کار کرسٹین فئیر نے کہا تھا کہ بش انتظامیہ سے یہ سمجھنے میں غلطی ہوئی کہ افغانستان میں امریکی مشکلات کا سبب پاکستان ہے۔ جب کہ اوباما حکومت نے اس امر کو باریکی سے جانچا اور سمجھا تھا اس لئے امریکی صدر جو بائیڈن جو کہ اوباما انتظامیہ میں نائب صدر تھے اس امر سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وزیر اعظم افغانستان کے معاملے میں ایک لاتعلق مہرہ ہیں۔ ان کی حیثیت تو اسلام آباد کے میئر جتنی بھی نہیں۔ اصل طاقت تو آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی ہے اور ان سے وہ بات کر رہے ہیں۔ ان کے پاس عمران خان سے بات کرنے میں دلچسپی نہ رکھنے کی وجہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر بائڈن کے فون کا انتظار
گذشتہ ماہ فنانشل ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے گلہ کیا کہ صدر بائیڈن کے نزدیک خطے میں پاکستان کی اہمیت کے باوجود تاحال اُنہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر بات نہیں کی۔ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کے صدر نے ایک ایسے اہم ملک کے وزیرِ اعظم سے ابھی تک بات کیوں نہیں کی جس کے بارے میں خود امریکہ کا یہ کہنا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں اس کا کردار نہایت اہم ہے۔
اس کے بعد سی این این کو حالیہ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ امریکی صدر نے تاحال فون نہیں کیا، وہ ایک مصروف آدمی ہیں۔
عمران خان یوں تو مغرب کو جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن جس انداز میں مغرب نے پچھلے کچھ عرصے میں طیور بدلے ہیں، اگر عمران خان واقعی مغرب کو جانتے ہیں تو انہیں مستقبل کی پیش بندی کچھ کچھ سمجھ میں آنا شروع ہو چکی ہوگی۔ فی الحال ان کے لئے اس میں مشکلات محض بڑھنے کا ہی امکان نظر آتا ہے، یہ مصائب کم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔