'سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے، پاکستان کو بھی دباؤ کا سامنا'

پاکستان کو سعودی عرب اور یو اے ای سے سرمایہ کاری کی امید ہے۔ دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا تو جہاں خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین معاہدہ طے پانے کا امکان ہے، وہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 70 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کو کچھ سٹریٹجک معاملات پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

'سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے، پاکستان کو بھی دباؤ کا سامنا'

آنے والے دنوں میں سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا امکان ہے جس کے پاکستان پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے اور ممکن ہے پاکستان کو بھی کچھ معاملات پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو پر تبصرہ کیا۔ 2019 کے بعد امریکی ادارے کو دیا جانے والا یہ ان کا پہلا انٹرویو ہے۔ انگریزی زبان میں دیے گئے اس خصوصی انٹرویو میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے دو اہم باتیں کی گئیں جن کے اثرات پورے خطے اور خاص طور پر پاکستان پر مرتب ہوں گے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا سعودی عرب کی ترقی سے متعلق وژن بڑا وسیع ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کی پہچان صرف تیل بیچنے والی ریاست کے طور پر نہ رہے بلکہ آنے والے سالوں میں وہ سعودی عرب کو انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے مرکز کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ ان کی معیشت جی 20 ممالک کے مابین تیزی سے بڑھ رہی ہے اور رواں سال ریاست نے ان علاقوں میں تیزی سے ترقی کی ہے جہاں تیل کے ذخائر نہیں ہیں۔

ان سے ایک سوال ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے کیا گیا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو سعودی عرب بھی جوہری ہتھیار حاصل کرے گا۔ 2019 میں بھی انہوں نے امریکی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے یہی جواب دیا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے یہ واضح پالیسی ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو پھر سعودی عرب بھی لازمی جوہری ہتھیار حاصل کرے گا۔ گو کہ مغربی ممالک کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، تاہم ایران کی جانب سے یہی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں حاصل کرنا چاہتا بلکہ ان کا نیوکلیئر پروگرام پرامن نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے اور کیا دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات بحال ہو جائیں گے؟ اس حوالے سے جب پوچھا گیا تو سعودی ولی عہد نے جواب دیا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین مذاکرات جاری ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

صحافی کے مطابق اس معاہدے کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کیا گیا تھا جسے ' ابراہام اکارڈ' یا ' معاہدہ ابراہیمی' کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد ہے کہ مشرق وسطیٰ، خلیج اور دیگر مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے جائیں۔ اس معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بحال کر لیا۔ تاہم سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ سعودی عرب اپنے آپ کو مسلم دنیا کے لیڈر کے طور پر دیکھتا ہے اور اسرائیل- فلسطین تنازع کے حوالے سے اس کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو حقوق دیے جائیں اور اسرائیل فلسطین کو الگ، آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرے۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا سعودی عرب کے لوگوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا آئیڈیا کچھ خاص پسند نہیں آئے گا۔ اس لیے منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔

اس کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات بھی جمال خشوگی کے قتل کی وجہ سے کشیدہ رہے۔ تاہم اب امریکہ دوبارہ سے ابراہام اکارڈ کی بحالی کی کوششیں کر رہا ہے اور اس کے تحت سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی پر بھی کوششیں جاری ہیں۔ انٹرویو میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مذاکرات کی معطلی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین مذاکرات جاری ہیں اور شاید وہ معاہدہ طے پانے کے بھی قریب ہیں۔ تاہم سعودی عرب کی جانب سے شرائط رکھی گئی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اس بات سے مشروط ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق ملیں اور وہ اپنے ملک میں خوشحال زندگی گزاریں۔ یعنی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اسی صورت ممکن ہے کہ اسرائیل فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرے اور جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ واپس کر دیے جائیں۔ تاہم موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو اتنی آسانی سے یہ شرائط قبول کرتے نظر نہیں آ رہے۔

سعودی عرب کی جانب سے ایک شرط یہ بھی رکھی گئی ہے کہ امریکہ انہیں سکیورٹی کی یقین دہانی کروائے کہ اگر ایران یا کوئی اور ملک سعودی عرب پر حملہ کرتا ہے یا ان کی سالمیت کو نقصان پہنچاتا ہے تو امریکہ ان کی مدد کے لیے آئے گا۔ نا صرف روایتی بلکہ اگر جوہری ہتھیاروں کی بھی ضرورت پڑی تو امریکہ ان کی مدد کرے گا۔ ماضی میں ہونے والی یمن جنگ اور حوثی باغیوں کے سعودی تیل ریفائنری آرامکو پر حملے جیسے واقعات کے بعد امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کی اس طرح مدد نہیں کی گئی تھی جیسا کہ سعودی عرب کو امید تھی۔ اسی تناظر میں یہ شرط رکھی گئی ہے۔

اس کے بعد سعودی عرب امریکہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے چین کی جانب چلا گیا۔ سعودی عرب کے چین کے ساتھ تعلقات بہتر ہو گئے۔ جب سعودی عرب کو اندازہ ہوا کہ امریکہ اب ان کی مدد کے لیے نہیں آئے گا تو خطے میں دوسرے روایتی حریف سے تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد چین نے ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی میں ثالث کا کردار ادا کیا۔

چونکہ امریکہ کے لیے سعودی عرب اہم اتحادی رہا ہے تو امریکی پالیسی میکرز کو یہ خیال آیا کہ اگر سعودی عرب ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو خطے کا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا۔ اسی تناظر میں سعودی عرب کو پوری ڈیل آفر کی گئی کہ اگر وہ چین سے دوری اختیار کر لیتا ہے تو اسے سکیورٹی کی گارنٹی بھی دی جائے گی۔ اس ڈیل میں سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کا بھی قوی امکان ہے۔

اگر اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کا دباؤ پاکستان پر بھی آئے گا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ سعودی عرب کی ہی سٹریٹجی تھی کہ پہلے متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں۔ اگر اسلامی دنیا کا واحد نیوکلیئر ملک پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے گا تو سعودی عرب کے لیے ایسا کرنا قدرے آسان ہو گا۔ اس کے اثرات پاکستان پر اس لیے بھی ہوں گے کیونکہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے جو اکنامک پلان بنایا گیا ہے اس میں خلیجی ممالک، خصوصی طور پر سعودی عرب اور یو اے ای سے سرمایہ کاری لانی ہے۔

گوادر میں آئل ریفائنری کے لیے پاکستان سعودی عرب سے 12 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے، سعودی عرب کو پاکستان نے ریکوڈک مائینز کے شیئرز خریدنے کی پیش کش کی ہے۔ زراعت اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں سعودی عرب اور یو اے ای سے سرمایہ کاری کی امید ہے۔ دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا تو جہاں خطے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین معاہدہ طے پانے کا امکان ہے، وہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 70 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کو کچھ سٹریٹجک معاملات پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔