پولیو رضاکاروں کی سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکار قتل

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیو مہم کے دوران بچوں کی حالت غیر ہو جانے کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پھیلائی جانے والی افواہوں کے ایک روز بعد خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہل کار کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔

پولیس نے پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہل کار پر ہونے والے جان لیوا حملے کی تصدیق کر دی ہے۔ بنوں کے ضلعی پولیس افسر یاسر آفریدی کا کہنا ہے کہ مقتول اے ایس آئی عمران پولیو مہم کے دوران رضاکاروں کی سکیورٹی کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزم موٹرسائیکل پر سوار تھے جو کارروائی کرکے جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یاسر آفریدی نے کہا ہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی نے واقعہ کی تفتیش شروع کر دی ہے۔



دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا ہے کہ ہم شہید اہلکار کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں، انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ ملزموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو کو شکست دینے والے شخص کی ریاست سے اپیل

یاد رہے کہ گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک سکول میں پولیو ویکسینیشن کے دوران مبینہ طور پر 75 بچوں کی حالت بگڑنے کی افواہ اُڑائی گئی تھی جس پر مشتعل افراد نے مرکز صحت کو نذر آتش کر دیا تھا۔

تاہم، پشاور کی مقامی عدالت نے انسداد پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور بچوں کی طبیعت کی خرابی کا ڈرامہ رچانے والے ملزم کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے ردعمل کے طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہ ملک بھر میں ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بناتے رہے ہیں جن کے خیال میں مغربی طاقتیں پولیو کے قطرے پلانے کے بہانے پاکستانی بچوں کو بانجھ بنانے کے علاوہ خفیہ معلومات بھی حاصل کر رہی ہیں۔



یہ رجحان ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پرتشدد رُخ اختیار کر گیا تھا جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن مارے گئے تھے اور اس حوالے سے ڈاکٹر شکیل آفریدی پر جاسوسی کا الزام لگا تھا جنہوں نے ایک جعلی ہیپاٹائٹس ویکسین مہم چلائی تھی۔

اس وقت دنیا کے صرف تین ملک ہی ایسے ہیں جہاں پولیو کا مرض اب بھی موجود ہیں جن میں پاکستان کے علاوہ افغانستان اور نائیجیریا شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک کا اہم فیصلہ

پولیو ایک انتہائی موذی مرض ہے جس سے زیادہ تر پانچ برس کی عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے ویکسین کے علاوہ کوئی علاج نہیں۔

رواں برس اب تک ملک بھر میں پولیو کے آٹھ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے دو کیسز آج ہی شمالی وزیرستان اور ضلع بنوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سنٹر کے مطابق، انسداد پولیو کی حالیہ مہم کے دوران پیدا ہونے والی   صورت حال کے باعث صرف پشاور کی 24 یونین کونسلز میں پولیو مہم تعطل کا شکار ہے۔