چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم خان نے جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی کے لیے ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا۔ جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کا کیس لاہور ہائی کورٹ کے سپرد کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس سردار محمد شمیم خان نے لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس پیر مورخہ 26 اگست کو طلب کیا ہے۔ اجلاس میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی پر غور کیا جائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی 7 سینئر ججز پر مشتمل ہے جو کارروائی کے حوالے سے غور کرے گی، جبکہ کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کریں گے۔ کمیٹی کے دیگر سینئر ججز میں جسٹس مامون الرشید شیخ، جسٹس قاسم خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس ملک شہزاد احمد خاں شامل ہوں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 12 جولائی کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔
جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ
جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سنایا۔ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیس میں 5 ایشو سامنے آئے، پہلا ایشو یہ تھا کہ کونسا فورم ویڈیو پر فیصلہ دے سکتا ہے؟ دوسرا ایشو یہ تھا کہ ویڈیو کو اصل کیسے جانا جائے؟ تیسرا ایشو اگر ویڈیو اصل ہے تو کیسے عدالت میں ثابت کیا جا سکے گا؟ چوتھا ایشو یہ تھا کہ ویڈیو اصل ثابت ہونے پر نواز شریف کی سزا پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ جبکہ پانچواں ایشو احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے کنڈکٹ سے متعلق تھا۔
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر چیف جسٹس کا تحریر کردہ کیس کا 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ جج ارشد ملک ویڈیو کیس میں سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی، معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ارشد ملک بھی اسی کے ماتحت ہیں، لہٰذا کیس سے متعلق تمام درخواستیں نمٹائی جارہی ہیں۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ متعلقہ ویڈیو کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب تک صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا جاتا تب تک اس کا نواز شریف کو کوئی قانونی فائدہ نہیں ہو سکتا، ہائی کورٹ ویڈیو کے مصدقہ ہونے کا فیصلہ کرے گی اور پھر ثابت ہوگا کہ اسے قانونی طور پر کیس میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہی دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی طرف سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے ویڈیو کا ابھی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔
تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ارشد ملک بیان حلفی اور پریس ریلیز ایک تلخ حقیقت ہے جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ بلیک میل ہوئے، جج کا یہ تسلیم کرنا ہمارے لیے چونکا دینے کے مترادف ہے اور ویڈیو پر ارشد ملک کے بیانات ان کے خلاف کارروائی کے لیے کافی ہیں۔ جج کا طرز عمل ادارے کے لیے بدنما داغ کی طرح ہے اور ان کی مکروہ حرکتوں سے کئی ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔
جج ویڈیو اسکینڈل کیس کیا ہے؟
6 جولائی کو مریم نواز نے پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھی۔ اس ویڈیو میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔
انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔
ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔
جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔
یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔ احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ریفرنسز پر 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 24 دسمبر 2018 کو سنایا تھا۔