خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اداروں کے مابین خلیج قومی مفادات کے لئے خطرناک ہے، سعد رفیق نے مزید کہا کہ مشرف غاصب اور آئین شکن تھے، سیاستدانوں کو غدار قرار دیتے ہوئے ان کے کروڑوں حامیوں کے جذبات کا کبھی خیال نہیں کیا گیا،عدلیہ کے خلاف مہم ناقابل قبول ہے، جانبدارانہ احتساب کا نشانہ صرف مسلم لیگ ن ہے۔
ریمانڈ میں توسیع
خیال رہے کہ آج لاہور احتساب عدالت میں خواجہ برادران کو کیس کی سماعت کے لیے پیش کیا گیا، عدالت نے خواجہ برادران کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 جنوری تک توسیع کر دی۔ پیراگون کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے پراسیکیوٹر سے وعدہ معاف گواہ قیصر امین بٹ سے متعلق استفسار کیا کہ وہ کہاں ہے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ قیصر امین بٹ بیمار ہیں، عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے کوئی تحریری رپورٹ یا جواب نہیں آیا مگر پتا چلا ہے کہ وہ بیمار ہیں۔ عدالت نے کہا قیصر امین بٹ کا وعدہ معاف گواہ بننے کا بیان ان کی موجودگی میں کھولا جائے گا۔ خواجہ برادران کے وکیل اشتر اوصاف کے معاون نے بھی عدالت کو بتایا کہ خواجہ برادران کے وکلا بھی کمرۂ میں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔
دریں اثنا، سپریم کورٹ اسلام آباد میں درخواست ضمانت پر سماعت ہو رہی تھی، تاہم سعد رفیق اور سلمان رفیق کے وکیل اشتر اوصاف کی علالت کے باعث ملتوی کر دی گئی، جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کو وکیل کی علالت سے متعلق آگاہ کیا گیا، جس پر عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے19 دسمبر کو اپنے تفصیلی فیصلے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں 5 بار سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فیصلے کے پیرا گراف نمبر 66 میں لکھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کریں اور فیصلے پر عمل درآمد کریں اور اگر پرویز مشرف اس دوران انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو تین روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکایا جائے۔
جسٹس وقار سیٹھ کے اس حکم سے بینچ میں شامل دیگر دونوں ججز نے اختلاف کیا ہے اور ان کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
حکومت اور فوج کے علاوہ مذہبی اسکالرز نے بھی فیصلے کے اس حصے پر شدید تنقید کی اور اسے غیر اخلاقی قرار دیا۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مشرف کیخلاف فیصلے کے اس حصے کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس وقار سیٹھ کیخلاف ریفرنس دائر کیا جائے گا جبکہ حکومت اس پورے فیصلے کیخلاف اپیل بھی کرے گی۔