بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور کرفیو کو آج 86 روز ہو چکے ہیں، وزیراعظم عمران خان کی یو این میں کی گئی تقریر کو بھی آج ایک ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے مگر وادی کے حالات جوں کے توں کے ہیں۔
وادی میں مسلسل کرفیو اور ذرائع ابلاغ مکمل طور پر بند ہیں۔ ہندوستان اپنی تمام تر چالوں، ظلم و بربریت اور ہر طرح کی پابندیوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو ماند نہ کر سکا وادی میں آج بھی احتجاج ہوتے ہیں، جب جہاں اور جیسے ہی موقع ملے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور آزادی کے نعرے لگاتے ہیں۔
گو کہ بھارت نے آزادی پسندوں کی آواز دبانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے، نوجوانوں کو اٹھایا گیا، بچوں کو بھی غائب کیا گیا (یہ وہ معلومات ہیں جو مختلف بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے رپورٹ کی گئی ہیں) اس کے علاوہ بھارتی افواج وہاں کس طرح کے مظالم کر رہی ہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب تک کی معلومات کے مطابق بھارت ابھی تک اپنے مقاصد میں مقبوضہ کشمیر کی حد تک کامیاب نہیں ہوا کیونکہ وہاں کے نوجوان کا جذبہ آزادی آج بھی ہمیں نظر آ رہا ہے لیکن انہی 60 دنوں میں شہِ رگ کے وارثوں نے بھی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اتنی بڑی کامیابیاں حاصل کیں کہ پہلے تو ہم صرف کرکٹ ورلڈ کپ جیتے لیکن اب فٹبال ورلڈ کپ بھی ہم نے اپنے ہی نام کیا ہے یہ الگ بات ہے کہ ان تمام کامیابیوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے حالات میں ذرا برابر تبدیلی بھی نہیں آئی لیکن ہم پھی بیرونی دوروں کی واپسی پر ائیرپورٹ پر اپنے کھلاڑیوں کا شاندار اور جاندار استقابل کرتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد جو ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ان میں سب سے بڑی کامیابی وزیراعظم عمران خان کی یو این میں تقریر تھی جسے آپ فٹبال ورلڈ کپ جیتنے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب یقینا تقریر کی حد تک ایک موثر خطاب تھا، لیکن بدلا کیا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر شخص کے ذہن میں ہے لیکن اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقوام متحدہ میں وزیراعظم نے بغیر پرچی کے کشمیر کے معاملے پر جذبات سے بھرپور تقریر کی، اس کے علاوہ ان 60 دنوں میں ہم نے تاریخی کامیابیاں بھی حاصل کیں جو کہ 72 سالوں میں ہم حاصل نہیں کر پائے۔
ہمارے وزیراعظم عمران خان جو کہ پاکستان میں کشمیر کے سفیر اور اب ترجمان بھی ہیں انہوں نے سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر محمد بن سلمان، ترکی ملائشیا اور امریکی صدر جن کو ثالث کے طور پر بھی متعارف کروایا گیا ان سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی اور انہیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا، وزیراعظم نے ممکنہ ثالث امریکی صدر ٹرمپ سے حٓلیہ دنوں میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران ملاقات بھی کی جس میں امریکی صدر نے ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی ہے، وزیراعظم نے دیگر کئی ممالک کے سربراہان، انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپنے دورے کے دوران ملاقات کی، یہ ملاقاتیں بھی بڑی کامیابیوں میں سے ہیں کیونکہ اب کی بار وزیراعظم عمران خان ہیں تو ان ملاقاتوں کے اچھے نتائج بھی آ سکتے ہیں لیکن کب تک آئیں گے یہ نہیں بتایا جا سکتا۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے سعودی ولی عدہ سے بھی ملاقات کی اور ایک مرتبہ پھر ان کو کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا ہو گا یہ بات الگ ہے کہ وزیرخارجہ کہہ چکے ہیں کہ امہ کے مفادات بھارت کے ساتھ وابستہ ہیں اور یو این اور امہ سے امیدیں لگانے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
اب یہی احمق وزیراعظم کی تقریر کے بعد ایک مرتبہ پھر احمق بن چکے ہیں اور وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر پر شاداں ہیں لیکن اب اس تقریر کا اثر کم ہونے لگا ہے کیونکہ جارحانہ تقریر سے کچھ بدلا نہیں۔ ہماری وزارت خارجہ اور حکومت کی طرف سے جسے اب تک کی سب سے بڑی کامیابی گردانا جاتا ہے، وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر 50 سال بعد اس طرح کی بات چیت کا ہونا ہے حالانکہ سلامتی کونسل کی جانب سے کوئی متفقہ پریس ریلیز یا اعلامیہ تک نہیں جاری ہو سکا۔
اس کے بعد ایک اور بڑی کامیابی کا ہمیں بتایا گیا کہ جو کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ قوم سے خطاب میں بتائی کہ ان کی تقریرسے دنیا سمجھ چکی ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اس لیے جو لوگ جہاد یا کشمیر میں فوج بھیجنے کی بات کرتے ہیں وہ کشمیریوں اور پاکستان کے متفقہ دشمن ہیں۔
اب وزیراعظم سے اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ حضور اقوام متحدہ میں تقریرسے پہلے اور بعد میں آپ نے کشمیر کی صورتحال پر کتنے ممالک کا دورہ کیا، کتنے ممالک میں جا کر اپنے حق میں کوئی ایک آدھ پریس ریلیز جاری کروائی تو جواب مکمل طور پر نفی میں ہے۔
مسئلہ کشمیر پریو این میں ہونے والی مبہم بحث کا سارا کریڈٹ نریندر مودی کو جاتا ہے جس کے اس اقدام کی وجہ سے ہم اچانک سے گہری نیند سے جاگے اور جب تک ہمیں سمجھ آتی نریندر مودی آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کر چکا تھا اور ہم کلسٹر بموں کے گرد گھوم رہے تھے۔ ہماری بڑی کامیابیوں میں یورپی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث پھر امریکی سینیٹرز کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر تحفظات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر مذمت بھی شامل ہے لیکن اب تک کی بڑی کامیابیوں کو دیکھا جائے تو بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول پر لانے کے لیے بھارتی حکومت کو ہدایات بھی ہماری ہی کامیابی ہے لیکن اگر حقائق دیکھیں جائیں تو جب نریندرا مودی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج بھیج رہا تھا اور ہمارے وزیرخارجہ کو معاملے سے آگاہ ہونا چاہیے تھا عین اسی وقت موصوف حج کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب چلے گئے اور 5 اگست کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تب ہم کلسٹر بموں اور ایل او سی کی صورتحال سے دنیا کو آگاہ کر رہے تھے لیکن بہر حال ہماری آواز اتنی توانا اور واضع ہے کہ یہ ساری کامیابیاں ہم اپنے کھاتے میں شمار کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پلے کچھ ہے جو نہیں۔تحریک انصاف کی حکومت کا ہر وزیر اور خود وزیراعظم 5 اگست کے بعد اب تک کئی معرکے سر کر چکے ہیں جیسا کہ ہر پریس کانفرنس اور جلسوں میں آپ پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اتنی ڈھیر ساری کامیابیوں کا اکٹھا تذکرہ سنتے ہیں مگر وزیراعظم سے ایک مودبانہ سوال ہے کہ اگر اتنی ساری کامیابیاں جو کہ 72 سال میں ہم حاصل نہیں کر پائے اس کے باوجود آج تک کشمیر سے کرفیو کا خاتمہ کیوں نہ ہو سکا؟
خیر اب ان کامیابیوں کی آڑ میں اگر مولانا فضل الرحمان نہ آتے تو آج تک شاید کوئی اور معجزہ بھی ہو سکتا تھا۔
۔72 سال سے ہمارے منتخب وزرائے اعظم اقوام متحدہ میں اسی طرح کا خطاب کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی دیکھ کر تقریر کرتا ہے تو کوئی فی البدیہہ تقریر کا آپشن استعمال کرتا ہے اسے آپ انگریزی زبان پر عبور یا احتیاط بھی کہہ سکتے ہیں۔ وزیراعظم کا خطاب حالات کے مطابق جامع اور موثر تھا کیونکہ پچھلے 72 سالوں میں کشمیر کی آئینی حیثیت کو کبھی ختم بھی نہیں کیا گیا اس صورتحال میں ایسے ہی خطاب کی توقع کی جا رہی تھی لیکن وزیراعظم کے خطاب کا اثر کتنا ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کیوں کہ کشمیریوں کو اب تک گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا جا رہا۔ سکولز کالجز، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور رابطے بحال نہیں ہو سکے، جو حالات 5 اگست کو تھے آج بھی وہی ہیں۔
آج شہ رگ دشمن کے ہاتھ میں ہے مگر یہاں سے پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم پر امن لوگ ہیں، جنگ کا آپشن تو تباہی کے مترادف ہے اور جہاد کرنا یا خونی لکیر کو عبور کرنا کشمیریوں سے دشمنی ہے۔
ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کشمیر کے لیے آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑیں گے، اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، بھارت کی طرف سے آزادکشمیر میں آئے روز اینٹیں پھینکیں جاتی ہیں، کشمیر میں خون کی ہولی بھی جاری ہے مگر یہاں سے کبھی غزوہ ہند کے، تو کبھی ساتھ کھڑے ہونے کے نعرے لگتے ہیں۔
سب کچھ تبدیل ہو گیا مقبوضہ کشمیر کا سٹیٹس بدل گیا، بھارتی آرمی چیف اب آزادکشمیر اورگلگت بلتستان کی بات کررہے ہیں اور ہم بھی اب سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت سے آگے نکل کر سفیر اور ترجمان تک پہنچ گئے ہیں لیکن لڑنا نہیں ہے، ہم نے صرف کھڑا رہنا ہے اور جب تک بھارت اینٹ پاکستان کے اندر نہیں پھینکتا، جیسا کہ بالاکوٹ میں ہوا تب تک ہم نے پتھر بھی نہیں پھینکنا بلکہ تقریر، پھر تقریراور پھر تقریر کی جائے گی۔