مزاحمتی سیاست پر فاتحہ پڑھ لیجئے، بلاول اب چائے کی پیالی پر سیاست کریں گے

مزاحمتی سیاست پر فاتحہ پڑھ لیجئے، بلاول اب چائے کی پیالی پر سیاست کریں گے
اب بلاول کے چاہنے والے چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو آئینہ نہ دکھلائے۔ مان لیا کہ نواز شریف جیسا سخت لب و لہجہ اپنانے کے وہ حق میں نہیں تھے۔ یہ بھی مان لیا کہ نواز شریف نے جو لب و لہجہ اپنایا وہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔ مگر جس آل پارٹیز کانفرنس کی بنیاد بلاول بھٹو زرداری اور ان کی پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈالی تھی، اس کے مشترکہ اعلامیے میں اس نکتے پر تو کوئی ابہام نہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کردار ختم ہونا چاہیے۔ یہ APC ہی نہیں، اس سے پہلے پاکستان بار کونسل کی جانب سے بلائی گئی APC میں بھی اعلامیے کا اس نکتے کو حصہ بنایا گیا تھا اور دونوں مواقع پر بلاول بھٹو زرداری کی تقاریر میں اس نکتے پر خصوصی طور پر زور دیا گیا تھا۔

مگر اب بلاول چاہتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف سڑکوں اور چوراہوں پر جلسے جلوس نہیں، بند کمروں میں چائے کی پیالیوں پر سیاست کی جائے۔ گویا سیاسی فیصلے عوامی عدالتوں کی بجائے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کیے جائیں۔ جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کیا جائے اور حکومت کے اتحادیوں کو اس سے توڑا جائے۔ بلاول بھٹو ہرگز یہ بھول نہیں سکتے کہ حکومتی اتحادی ہیں کون کون۔ ان میں وہ مسلم لیگ (ق) ہے جسے 2002 کے انتخابات کے لئے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو توڑ کر بنایا گیا تھا۔ یہ بنی ہی بطور کنگز پارٹی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ ماضی کی MQM کا وہ حصہ ہے جس نے اسٹیبلشمنٹ سے لڑ بیٹھے الطاف حسین کی سیاست کو ٹھکرا کر MQM پاکستان کی داغ بیل ڈالی۔ ورنہ ان سب کی سیاست ختم ہو چکی تھی۔ ایک زمانے میں کراچی اور حیدرآباد کی واحد سیاسی طاقت اب چار، پانچ نمائندگان پر مشتمل ہے اور اس چھوٹی سے نمائندگی کے لئے بھی اسٹیبلشمنٹ پر ہی انحصار کرتی ہے۔ تیسری جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ہے جسے 2018 میں بنایا ہی بلوچستان حکومت کو گرانے کے لئے گیا تھا۔ نواز شریف کی بات مان لی جائے تو اسے اس وقت سدرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے بنایا تھا۔ اور چوتھی جماعت سندھ کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ہے جس میں سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ فنکشنل ہے۔ اس کے سابق سربراہ پیر صاحب پگاڑا مرحوم اپنے منہ سے خود کو GHQ کا آدمی کہا کرتے تھے۔

یعنی چار عدد سکہ بند اسٹیبلشمنٹ کی جماعتوں کو حکومت سے چائے کی پیالی پر توڑ کر بلاول عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا چاہتے ہیں۔ اس کے تو دو ہی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ جماعتیں واقعتاً عمران خان کے خلاف ووٹ دے کر انہیں اقتدار سے علیحدہ کر دیں۔ ایسا ہوا تو صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی صورت نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جماعتیں نہ ٹوٹ سکیں، تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو جائے اور پھر حکومت تسلی سے اگلے ڈھائی سال بھی گزارے اور بلاول کی سندھ حکومت کو بھی کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ دونوں ہی صورتوں میں ایک بات تو طے ہے کہ بلاول یا تو اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے عمران کو نکالنا چاہتے ہیں۔ یا پھر اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے عمران خان کو بچانا چاہتے ہیں۔

کچھ لوگوں ابھی بھی اپنے دل کو تسلیاں دیتے ہیں کہ بلاول نہیں، یہ سب کیا دھرا ان کے والد آصف علی زرداری کا ہے۔ ان لوگوں کو یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے دل کی تسلی کے لئے اسی پریوں کی کہانی میں یقین رکھیے، حقیقت وہی ہے جو شیخ رشید نے کہا، کہ بلاول بھی بالغ ہو گیا ہے۔ یہی بلاول 2018 میں بھی کہتا تھا کہ اب کراچی میں بھی پیپلز پارٹی کا راج ہوگا۔ کیونکہ اس وقت MQM دیوار سے لگائی جا چکی تھی۔ یہی بلاول بلوچستان حکومت گرانے پر فخر کا اظہار بھی کرتا تھا۔ یہی بلاول اب PDM کو بھی زہر دے کر مارنے پر تلا ہے۔

مزیداری کی بات تو یہ ہے کہ شبلی فراز نے جو کچھ بلاول کے بارے میں کہا تھا، ایک ایک لفظ من و عن سچ ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی، نہ ہی لانگ مارچ کرے گی، نہ دھرنے پر بیٹھے گی۔ بلاول کی ایک ایک چال کو تحریکِ انصاف پہلے سے جانتی تھی۔ آپ اب بھی ان سے عوامی سیاست کی امید لگائے بیٹھے ہیں، تو بیٹھے رہیے۔ یہ تو اب چائے کی پیالیوں کی سیاست ہی کریں گے۔ مزاحمتی عوامی سیاست پر بلاول نے فاتحہ پڑھ دی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.