معاشرے سے شدت پسندی کا رجحان ختم کرنا ہے تو اپنی اصل تاریخ سے جڑنا ہوگا: نیا دور کے پروگرام خبر سےآگے میں گفتگو

معاشرے سے شدت پسندی کا رجحان ختم کرنا ہے تو اپنی اصل تاریخ سے جڑنا ہوگا: نیا دور کے پروگرام خبر سےآگے میں گفتگو
نیا دور کے پروگرام  خبر سے آگے میں پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے رجحانات کی وجہ بننے والے عوامل کا تجزیہ کیا گیا۔ پروگرام میں معروف وکیل یاسر لطیف ہمدانی، تاریخ دان سرمد سلطان اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ افشاں مصعب شریک تھے۔ جبکہ میزبان علی وارثی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ   خیبر پختونخوا میں بدھا کے مجسموں کو توڑا گیا اور اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو ہر ممکن کوشش کر کے رکوایا گیا۔ پھر پنجاب اسمبلی میں ایم پی اے رخسانہ کوثر کی جانب سے داڑھی کے ڈیزائن بنوانے کے خلاف قرارداد پیش کی گئی۔ جس میں اس عمل کو ایک جرم قرار دیا گیا۔ سیاست اور کار ہائے ریاست میں مذہب کا استعمال معاشروں کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے۔
علی وارثی نے کہا کہ انکے دادا بتایا کرتے تھے کہ وہ متحدہ ہندوستان میں جب پڑھا کرتے تو انکی نصابی کتب میں بدھ مت کے مذہبی خدو خال سے لے کر بدھ مت کے سیاسی کردار تک تمام معلومات تک انکی رسائی تھی اور اس حوالے سے ان کا وسیع مطالعہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ بہت قدیم اور اس خطے میں گہرا وجود رکھتی ہے۔

لیکن ہم اسے اپنانے سے کتراتے ہیں۔ ہمارے آج کے نصاب میں تاریخ کا مضمون ہے ہی نہیں، جو مضمون ہے۔ وہ شروع ہی ہوتا ہے 712 عیسوی سے، اور پھر 300 سال کی چھلانگ مار کر ہم آتے ہیں سلطان محمود غزنوی پر اور پھر ہم 2، 300 سال کی چھلانگ مار کر ہم اورنگ زیب عالمگیر پر آتے ہیں اور پھر ہم سر سید پر آجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا تاریخ کو مٹانے کا یہ عمل ہمارے معاشرے میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی ایک عمومی وجہ ہے؟
اسی سوال کے جواب میں تاریخ دان اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ سرمد سلطان کا کہنا تھا کہ میں اتفاق کرتا ہوں کہ تاریخ کا قتل عام ہوا ہے۔ اشوکا اور چندر گپت موریا سے بھی قبل کی تاریخ موجود ہے۔ آریان سے قبل کی بھی تاریخ موجود ہے۔ ہڑپہ ہے موہنجوداڑو ہے۔ ہماری تاریخ تو بہت پرانی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں اور پاکستانیوں کی تاریخ نہیں ہے۔

ہم ایک قدیم تاریخ کے امین ہے جس کا رشتہ ہماری زمین کے ساتھ ہے۔ جو اس زمین کے باسی ہیں۔ جب تک ہم اس کا ناطہ اس زمین سے نہیں جوڑیں گے آپکے ہاں شدت پسندی رہے گی۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس خطہ میں رہنے والے افراد نے کبھی کسی سر زمین پر حملہ نہیں کیا۔ یہ پر امن لوگ تھے۔

ہم اسی تاریخ پر کھڑے ہیں لیکن اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ قائداعظم نے پہلی تعلیمی کانفرنس 30 نومبر سے یکم دسمبر 1947 کو ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں تعلیمی نظام ایسا چاہئے جو ہماری ثقافت اور معاشرت اور تاریخ سے ہم آہنگ ہوں۔
یہ بہت اہم بات تھی۔ قائداعظم لیکن ہم نے قائداعظم کے افکار کو چھوڑ دیا۔ آپکے وزیر تعلیم فضل الرحمان نے کہہ دیا کہ یہ اسلامی تعلیمات اور پروفیشنل تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگی بنگالی کی بجائے اردو زبان ہوگی۔ جس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔

اس حوالے سے ممتاز وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن یاسر ہمدانی نے کہا کہ قائداعظم کی سیاست اور پاکستان بننے کا عمل کافی متنازعہ ہے۔ لیکن ایک بات متفقہ ہے کہ قائداعظم اسے ایک عسکری ملائیت پر مبنی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔ یہ ایک انکا ایسی ریاست کا تصور تھا جس میں ریاست کا انکے مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لیکن پھر زاویہ بنایا گیا تا کہ ملک کو ایک قوم پرست رنگ دیا جائے جس کے سامنے کوئی بھی کھڑا نہیں ہوسکا اور تمام ترقی پسند نظریات اس کے سامنے کھڑے نہ ہوسکے۔

جناح صاحب ایک بندے تھے لیکن انکے مقابلے پر بہت لوگ تھے۔ اور یہ بھی مستند بات ہے کہ وہ آخری ایام میں پاکستان کی سمت کے حوالے سے اداس تھے اور انہوں نے پاکستان بنانے کے حوالے سے افسوس بھی کیا تھا۔ پاکستان کا بننا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان آئینی انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ہمیں یہ ڈر پیدا ہوگیا کہ مسلمان تو ہم سے زیادہ باہر ہیں۔ تو اس کے لئے ایسا آئین بنانے کی فضا پیش کی گئی جس مین مذہب کو نظام ریاست کا حصہ بنایا گیا۔

پروگرام میں شریک سوشل میڈیا ایکٹوسٹ افشاں مصعب نے کہا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ حکومتوں کے خلاف مذہب کارڈ استعمال کیا شکر ہے موجودہ اپوزیشن نے مندر والے معاملے پر وہ کچھ نہیں کیا جو پہلے خان صاحب کرتے آئے تھے۔

شرکاا اس بات پر متفق نظر آئے کہ ہماری نسل کی اپنی تاریخ سے روشناس کروانا معاشرے میں شدت پسندی کے تدارک کے لئے لازم ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=OvHIrxZnzAo