انڈیا اور چین کے درمیان حالیہ دنوں میں لداخ کے مقام پر صورتحال کافی گھمبیر ہے۔ ان ممالک کے درمیان 1962 میں ایک جنگ بھی ہو چکی ہے۔ اگر ہم 1962 سے بھی پیچھے جائیں اور اس جنگ اور جھگڑے کی تاریخ جاننے کی کوشش کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ 1914 میں تبت اور برٹش انڈیا کے درمیان شمال مشرقی بھارت اور جنوبی تبت کی سرحدی حد بندی کا سمجھوتہ میکموہن لائن کے نام سے ہوا تو تبت چین کا حصہ نہیں تھا۔
1949 میں ماؤزے تنگ عوامی جمہوریہ چین کے آزادانہ قیام کا اعلان کیا تو نئی حکومت نے تمام غیر منصفانہ بین الاقوامی سمجھوتوں کا دوبارہ جائزہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔
1959 میں بھارت نے سرحدی نقشے شائع کیئے تو تبت کے علاقے بھارت کا حصہ دکھائے گئے جبکہ اس سے پہلے 1948 کے دن تک ریاست جموں و کشمیر کے علاقوں جن میں آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور چین کے زیر قبضہ آکسائی چن بھی شامل ہیں پر بھارت بلاجوازحق ملکیت کا دعوی کرتا چلا آرہا ہے۔
1950 میں چین نے تبت میں دلائی لامہ کی حکومت ایک خود مختار علاقے کے طور پر منظور کر لی تھی مگر پھر چین کو کہیں سے مصدقہ یا غیر مصدقہ یہ اطلاع ملی کہ بھارتی ایجنسیوں کی مدد سے سی آئی اے تبت میں چین مخالف جزبات ابھارنے کے لیے دلائی لامہ کی مدد کر رہی ہے۔ اب یہ چین کا وہم بھی ہو سکتا ہے مگر چین نے تبت کی خود مختاری ختم کر کے دلائی لامہ کو محض ایک روحانی درجے تک محدود کر دیا۔
1959 میں دلائ لامہ اپنے حامیوں کے ہمراہ فرار ہو کر بھارت پہنچ گۓ جہاں بھارتی حکومت نے انہیں ہماچل پردیش میں ایک بڑی جگہ فراہم کر دی جہاں تبت کی جلاوطن حکومت کا مرکز قائم کیا گیا۔ چنانچہ اس کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات مزید خراب ہوتے چلے گۓ اور پھر 1962 میں چین اور بھارت کی جنگ ہوئی۔
اس جنگ کے بعد بھی دونوں ممالک میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں مگر 1975 کے بعد حالیہ دنوں میں دونوں ملکوں بالخصوص بھارت کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا اور وہ بھارتی سیاستدان،فوج اور میڈیا جو پاکستان سے کشمیر کے معاملہ پر جھڑپوں کی صورت میں نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا دعوی کرتے اور پاکستان سے آنے والے کبوتر کو بھی جاسوس قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ چین سے تنازعہ کی صورت میں بھیگی بلی بن کر اپنی جان چھڑاتے نظر آتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک کا موازنہ کیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے دونوں ممالک پوری دنیا کےایک تہائی پر مشتمل ہیں۔ معاشی طاقت کے لحاظ سے چین کا درجہ بھارت سے کہیں اوپر ہے۔ 2018 کے مطابق چین کا جی ڈی پی بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔2019 کے اعدادوشمار کے مطابق چین نے تقریباً 261بلین ڈالر دفاع پر خرچ کئے جبکہ بھارت نے تقریباً 71 بلین ڈالر خرچ کیۓ اسطرح بھارت کا دفاعی بجٹ چین سے تقریباً چار گنا کم تھا۔ فوج کی افرادی قوت کے لحاظ سے بھی چین دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
موجودہ گرما گرمی کا ذکر کیا جائے تو بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے ان کے علاقے میں دراندازی کی اور چین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے مداخلت ہوئ۔اس معاملہ سے تھوڑا سا ہٹ کر اگر بھارت کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو بھارت کی بات میں زیادہ وزن محسوس نہیں ہوتا کیوں کہ بھارت کے پاکستان سے پہلے ہی کشمیر کی وجہ سے حالات خراب رہتے ہیں۔ حال ہی میں نیپال نے بھی اپنا نقشہ ترتیب دے کر ایک سرحدی علاقے کو اپنا علاقہ بتایا جس پر بھارتی وزیر پچھلے دنوں سڑک کا افتتاح کر کے آئے جبکہ نیپال کا دعویٰ ہے کہ یہ افتتاح غلط ہے کیوں کہ وہ سڑک نیپال کی حدود میں سے گزرتی ہے۔ اس پر بھارت کا کہنا ہے کہ نیپال کو چین ورغلا رہا ہے۔ جبکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بنگلہ دیش کو بھی چین نے 97 تجارت کرنے کی آفر کی ہے۔ ہمسایہ ملک ایران نے بھی کچھ مہینے قبل کشمیر کے معاملہ پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہوۓ بھارت کو مسلمانوں پر ظلم سے رکنے کا کہا۔یاد رہے کہ یہ ان ممالک کی بات ہو رہی ہے جو کہ بھارت کے اتحادی ہمسایہ ممالک سمجھے جاتے رہے ہیں۔
اب اگر دیکھا جاۓ تو بھارت سفارتی سطح پر بھی کم از کم اپنے ہمسایہ ممالک کی حد تک بہت ناکامی کا شکار ہے اور اگرچہ معاشی لحاظ سے بھارت خود کو چین کے مقابل تصور کرتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میرا ایک جاننے والا جو کہ انڈین تھا اس نے ایک موقع پر مجھے کہا کہ ہم ہندوستانیوں کا پاکستان سے تو کوئ مقابلہ نہیں پاکستان بہت پیچھے ہے معاشی لحاظ سے ہم تو چین سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔اس بات کو فی الحال تو دیوانے کی بڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔
بہرحال موجودہ تنازعہ کے بڑھنے کی صورت میں چین اور بھارت دونوں ممالک کا بھاری نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اگرچہ زیادہ نقصان بھارت کا ہو رہا ہے اور ہونے کا خدشہ ہے چاہے معاشی ہو یا جانی مگر نقصان تو چین کا بھی ہو گا چاہے بھارت سےکم ہی ہو اور پورے خطے پر بالخصوص اور دنیا پر بالعموم اس کا گہرا اثر ہو گا۔ اسلیۓ عقلمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ دونوں ممالک کو سفارتی طور پر اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیئے اور بھارت کو بھی مختلف پھڈوں میں پڑنے کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دینی چاہیئے جہاں عوام کی کثیر تعداد غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ جہاں کرونا نے معیشت کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور جہاں حکمرانوں کے جنگی جنون نے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر کے مہنگائی کا سیلاب برپا کر دیا ہے۔ دنیا کی بہتری امن قائم کرنے میں ہے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔