Get Alerts

بھارتی اشتعال انگیزی علاقائی امن و استحکام کے لیے بڑا خطرہ

بھارتی اشتعال انگیزی علاقائی امن و استحکام کے لیے بڑا خطرہ
حالیہ دنوں عالمی میڈیا میں چین اور بھارت کے سرحدی دستوں کے درمیان وادی گلوان میں ہونے والی جسمانی جھڑپوں اور ہاتھا پائی کو نمایاں کوریج حاصل رہی ہے۔ پاکستان کے روایتی اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے عام شہریوں اور ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بھارتی اشتعال انگیزی کے خلاف چین کے مضبوط جوابی ردعمل کو بھرپور سراہا گیا اور اسے چین کی جانب سے اپنی خودمختاری اور سلامتی کا مضبوط دفاع قرار دیا گیا ہے۔

حالیہ عرصے میں بھارت کی جانب سے اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے، چاہے پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہو یا پھر نیپال اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعات، بھارتی قیادت کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت اپنے توسیع پسندانہ نظریات کو ہمسایہ ممالک پر زبردستی لاگو کرنا چاہتی ہے مگر یہ بھولتے ہوئے کہ ہر ملک کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کا پورا حق حاصل ہے۔ بھارتی غلط فہمی کے باعث اسے چین کے ہاتھوں وادی گلوان میں شرمندگی اٹھانا پڑی اور اب بھارتی سیاسی اور عسکری قیادت اپنی خفت مٹانے کے لیے کھوکھلے دعووں کا سہارا لے رہی ہے۔

بھارت میں حزب مخالف رہنماؤں اور مختلف حلقوں کی جانب سے بھی مودی سرکار کی سفارتی پالیسی بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ چین کا اس حوالے سے موقف اٹل اور واضح ہے کہ چین بھارت حقیقی لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) پر وادی گلوان چینی سرزمین کا حصہ ہے۔ چینی سرحدی دستے کئی برسوں سے اس علاقے میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران گشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ رواں برس اپریل سے بھارتی سرحدی دستوں نے ایل اے سی پر وادی گلوان میں یکطرفہ طور پر شاہراہوں، پلوں سمیت دیگر تنصیبات کی تعمیر شروع کر دی۔ چین کی جانب سے متعدد مواقعوں پر اس حوالے سے احتجاج کیا گیا مگر بھارت نے نہ صرف اس احتجاج کو نظرانداز بلکہ مزید پیش قدمی جاری رکھی اور ایل اے سی کو پار کرتے اشتعال انگیزی شروع کر دی۔ چھ مئی کو بھارتی سرحدی دستے چین کی علاقائی حدود میں داخل ہو گئے اور عسکری تنصیبات کی تعمیر شروع کر دی۔ گشت پر موجود چینی دستوں کی جانب سے بھارتی اہلکاروں کو منع کرنے پر وہ اشتعال انگیز حربوں پر اتر آئے۔ مجبوراً چینی فوج کو زمینی حقائق کی روشنی میں اپنی سرحد کے تحفظ کے لیے لازمی اقدامات اٹھانا پڑے۔

چین اور بھارت دونوں نے سفارتی اور عسکری چینلز کے ذریعے تناؤ میں کمی کے لیے قریبی رابطہ برقرار رکھا۔ چین کی جانب سے اٹل موقف اپنانے پر بھارت ایل اے سی پار کرنے والے فوجی اہلکاروں کے انخلا اور فوجی تنصیبات مسمار کرنے پر راضی ہو گیا۔ چھ جون کو دونوں ممالک کے سرحدی دستوں کے درمیان کمانڈر لیول پر مذاکرات ہوئے اور تناؤ میں کمی پر اتفاق کیا گیا۔

بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ گشت یا فوجی تنصیبات کی تعمیر کے لیے دریائے گلوان کے دہانے کو عبور نہیں کرے گا اور فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ کمانڈر لیول مذاکرات کے ذریعے فوجی دستوں کے مرحلہ وار انخلا پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ ایک ایسے وقت میں جب وادی گلوان میں تناؤ کی صورتحال میں کمی آ چکی تھی، حیران کن طور پر پندرہ جون کو بھارتی دستوں نے فریقین کے درمیان طے شدہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی اور ایک مرتبہ پھر ایل اے سی پار کرتے ہوئے دانستہ اشتعال انگیزی کی اور مذاکرات کے لیے موجود چینی فوج کے افسران اور جوانوں پر حملہ کر دیا۔

بھارتی اشتعال انگیزی کا چینی فوجی دستوں کی جانب سے بھرپور جواب دیا گیا اور جسمانی جھڑپوں اور ہاتھا پائی میں ہلاکتیں ہوئیں۔ چین نے واضح کیا کہ بھارتی فوج کی اس مہم جوئی کے باعث سرحدی علاقے میں استحکام کو شدید نقصان پہنچا اور چینی فوجی اہلکاروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا ہے، بھارت کا یہ اقدام فریقین کے درمیان سرحدی امور سے متعلق اتفاق رائے کی سنگین خلاف ورزی اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اقدار کی نفی ہے۔

چین نے بھارتی اشتعال انگیزی کے خلاف شدید احتجاج کیا اور چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت میں چین کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کرتےہوئے بھارت کو باور کروایا کہ وہ ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے اور مستقبل میں ایسی مہم جوئی سے باز رہے۔

چین نے بھارت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں اور اور ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ عالمی قوانین کی روشنی میں بھی چین کو اپنی سرزمین کے تحفظ کا پورا حق حاصل ہے۔ چین کا وادی گلوان کے حوالے سے موقف جائز اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ بھارتی قیادت ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے سرحدی دستوں کو پاکستان، چین سمیت دیگر ہمسایہ ممالک میں ایسی کارروائیوں سے باز رکھے جو ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام کا باعث ہو سکتے ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی فاشٹ پالیسی اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے بل بوتے پر خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک رکاوٹ بن چکی ہے۔

بھارتی اشتعال انگیزی کے باعث ہمسایہ ممالک میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کووڈ۔19 کی عالمگیر وبا کے باعث صحت عامہ کے تحفظ کو درپیش سنگین عالمی چیلنج سے نمٹ رہی ہے، بھارتی جارح اقدامات نہ صرف بھارتی عوام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ وبا کے خلاف جاری عالمی تعاون کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔

بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمسایہ ممالک کے بجائے بھارت کی اپنی اندرونی "خامیاں ، ناکامیاں اور فاشزم" خود اُس کے لیے پریشانیوں اور مسائل کا باعث بن چکے ہیں۔ وبائی صورتحال کی روک تھام و کنٹرول پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت ملک میں غریب، مظلوم اور نسلی اقلیتوں کودرپیش مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اُن کی فلاح و بہبود پر توجہ دے۔ اگر پاکستان، چین اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف بھارتی اشتعال انگیزی کی یہی روش برقرار رہی تو اسے عالمی سطح پر ماسوائے تنہائی کوئی دوسری حمایت میسر نہیں آئے گی اور نتیجہ شرمندگی اور ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

شاہد افراز خان ماہر ابلاغیات ہیں۔ آج کل چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ پاک۔چین تعلقات اور دیگر اہم سیاسی و سماجی موضوعات پر پاکستانی میڈیا میں لکھتے ہیں۔