نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا ہے کہ علی وزیر کوئی راہ چلتا عامی آدمی نہیں، وہ پاکستان کے سب سے سپریم اور معزز ادارے کا ممبر ہے۔ وہ اگر کہہ رہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے تو اس کو سنجیدہ لینا چاہیے۔
محسن داوڑ نے کہا کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے کراچی میں منعقدہ ایک جلسے میں تقریر کی تھی، اسی کی پاداش میں ان کو مقدمہ درج کرکے پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علی وزیر کا کیس ہمارے ملکی نظام انصاف کا مکمل عکاس ہے۔ ان کی ضمانت کی درخواست پہلے ٹرائل کورٹ میں پیش ہوتی رہی اور بالاخر مسترد کر دی گئی۔ اس کے بعد ہائیکورٹ میں یہ عمل شروع کیا گیا۔ عدالت عالیہ نے درخواست ضمانت سنی اور پھر تین ماہ تک ملتوی کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کا خط لکھ کر ان سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے کہ اگر 90 دن تک کسی کیس کا فیصلہ نہ سنایا جائے تو اس کو ازسرنو سننا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوے دن پورے ہونے سے صرف ایک دن پہلے علی وزیر کی درخواست ضمانت کو ریجیکٹ کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد علی وزیر کا کیس سپریم کورٹ میں آیا اور یہاں بھی تعطل کا شکار رہا۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اس معاملے کو اٹھایا گیا تو مقدمے کو فکس کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد ملک کی سب سے بڑئ عدالت میں بھی اس کیس کی سماعت کیلئے بنچ بنتے اور ٹوٹتے رہے۔
رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ہمارا پی ٹی ایم کا کراچی میں ایک جلسہ ہونا تھا۔ اس جلسے کی وجہ سے میرے اور علی وزیر کے اوپر 6 ایف آئی آر کاٹی گئیں۔ ابھی تک اس کی ایف آئی آر میں ان گرفتاری رہتی ہے۔ یہ بڑا ہی مضحکہ خیز کیس ہے کہ ہم لوگ کلفٹن کے فلاں پلازے میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے اور پاکستان کیخلاف سازش کر رہے تھے۔
محسن داوڑ نے کہا کہ علی وزیر کوئی راہ چلتا عامی آدمی تو نہیں ہے، وہ پاکستان کے سب سے سپریم اور معزز ادارے کا ممبر ہے۔ وہ اگر کچھ کہہ رہا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے تو اس کو سنجیدہ لینا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری 2018ء میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ پی ڈی ایم کے شروعات کے دن تھے۔ ہم نے ان سے کہا تھا کہ جب تک تبدیلی نظر ہوتی نظر نہ آئے، ہمیں کسی چیز پر یقین نہیں ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے محسن داوڑ نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ سابق سپیکر اسد قیصر، علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر رہے کیونکہ ہم اپوزیشن میں تھے۔ محسن داوڑ نے کہا کہ نئے سپیکر راجا پرویز اشرف نے بھی علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا۔ میری آواز اٹھانے کے بعد پروڈکشن آرڈر جاری کر تو دیا گیا لیکن اب اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
https://twitter.com/mjdawar/status/1539908736927629312?s=20&t=VjqifVUPpYYM9upyznkIog
ٹی ٹی پی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اسے معاف کردیں، یہ پاکستان کی عدالتوں کا کام ہے اور یہ فیصلہ عدالتوں نے ہی کرنا ہے۔ ہم سیاسی ورکر ہیں ہم سے تو پوچھ لیں۔ طالبان نہ ہمارے آئین کو ماننے کو تیار ہیں اور نہ اس نظام کو۔ ان کا طریقہ کار ہی مختلف ہے۔ وہ بندوق کی زبان سے بات کرتے ہیں۔
محسن داوڑ نے خدشہ ظاہر کیا کہ الیکشن لڑنے کی بات ہو رہی ہے لیکن وہ لوگ تو بندوق کی زبان بولتے ہیں۔ اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ بندوق کے زور پر اپنے فیصلے نہیں کروائیں گے۔