پاکستان میں بھی روز بروز اس موزی جان لیوا وائرس سے متاثرین کی تعداد اس وقت تک سات سو ستر تک جا پہنچی ہے جبکہ مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 5 ہے جو پاکستان میں مطلوبہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خدا نخواستہ بڑھ سکتی اور اسکی طرف دنیا بھر کے ماہرین اشارہ بھی کر رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت اور اسکے حکام اور حکومتی عہدیداروں کی غیر سنجیدگی اور ماضی کی حکومتوں کے خلاف تیراندازی نظر آرہی ہے۔ اب تک کے مشاہدے کے مطابق اس وائرس سے سے متاثرین کی تعداد دن دگنی رات چگنی کی رفتار سے اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ اسکی ابھی تک کوئی دو دریافت نہیں ہو سکی.اٹلی فرانس برطانیہ امریکا جرمنی جیسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے بری ترہ متاثر ہیں، خاص کر کہ اٹلی جہاں صرف ایک دن میں تقریبا آٹھ سو افراد ہلاک ہونے کا ریکارڈ بنا اور کل مرنے والوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے جو چین سے زیادہ جہاں سے اس مرض کے حملے کا آغاز ہوا۔
پاکستان میں اس کے حملے کی شدت اس وقت آئی جب ایران سے انے والے زائرین کے لئے تفتان بارڈر کو بنا احتیاتی تدبیر کے کھول دیا گیا اور کھولا بھی کس نے بھلا ؟ مبینہ طور پر اسکا الزام وزیر اعظم کے سمندر پر پاکستانیوں کے مشیر اور انتہائی قریبی دوست زلفی بخاری پر لگایا جاتا ہے . موصوف خود بھی ایک ٹی وی برگرام میں اپنے اس فیصلے کو بیان کرتے پے گئے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ " خالی چند لوگ آرمڈ فورسز اور گورنمنٹ آف پاکستان نے فیصلہ کیا جو بلکل پاسپورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں انکو اندر آنے کی اجازت دی "۔
اس الزام کی سچائی پر یقین اس لئے آتا ہے کہ ممتاز شیعہ خاتون خطیبہ خانم طیبہ بخاری نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو داغ دیا اور کہ دیا کہ " زلفی سے بات ہو رہی تھی تو جب میں نے ان سے بات کی تو پہلے اس نے کہا میں ہی وو شخص ہوں جے فیصلے کر رہا ہے او اپ نے بالکل سہی فرد سے رابطہ کیا" اب سوال ہے کیا اس حوالے سے کوئی غلط فہمی کی کوئی گنجائش بھلا ؟ اس صورتحال کی مکمل تحقیقات کر کے زمہ داروں کو فوری طور پر فارغ کرنا ہوگا.
حکومت کے مخالفین نے بھی اس صورتحال کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بتا دیا کہ تفتان سے قافلوں کے قافلے بغیر ٹیسٹ کے اور قرنطینہ کے سے گزارے بنا کی شہروں کو تفتان سے روانہ کر دیا گیا اور پھر وہی دن دگنی رات چگنی کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے . ہوائی اڈوں پر صورتحال یہ کہ کراچی اور دوسرے ہوائی اڈوں سے مریض چھ چھ ہزار رشوت دے کر شیروں میں وائرس پھیلاتے رہے لیکن وفاقی حکومت بھی سوتی رہی اور سول ایویشن بھی، لیکن کوئی موثر نہ کر سکا.
اس خراب صورتحال میں ہر طرف سے ملک میں لاک ڈاون کا مطلبہ زور پکڑتا گیا اور جو اب بھی موجود ہے. خاص کر سندھ سے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے انتھک انتظامات تھے وہ تمام اجلاسوں میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ شہروں کو بند کردینے سے ہی صورتحال کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے .
اس دوران وزیر اعظم نے صرف تین دن میں دو قوم سے خطاب کر ڈالے جن میں سے پہلے خطاب میں کوئی مؤثر حکمت عملی دینے کے بجایے وہ بس احتیاطی تدابیر سمجھاتے پائے گئے. جب مطالبے میں مزید زور بڑھا تو ایک خطاب اور کر ڈالا اور پھر وہی کہ "میں نہ مانوں" والی گردان سنا ڈالی اور لاک ڈاون کا مطلبہ مسترد کر ڈالا کہ اس فیصلے سے غریب دھاڑی اور پھیری والی بچارے بھوکے مر جائیں گے اس لئے لوگ خود کو خود لاک ڈاون کر لیں . اب میرا سوال یہ ہے کہ گزشتہ کی روز سے بار بار یہ اپیل کی جارہی ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں، غیر ضروری طور پر میل ملاپ نہ کریں تو کیا لوگ باز آچکے؟ اور کیا ہماری عوام کی یہ تربیت ہے بھی کہ وہ ایسے صورتحال میں گھروں میں رہیں؟ اور پھر کیا جب لوگ خود کو گھروں میں مقید کر لیں گے تو کیا روز کے دیہاڑی دار بھوک سے بچیں گے؟ اور کیا آج کی صورتحال میں کیا انکو روزگار مل رہا ہے جب ہر طرف بے یقینی کی صورتحال ہے، نہ کوئی نوکری نہ کوئی کاروبار چلتا نظر آ رہا ہے۔
جہاں تک لاک ڈوان کا تعلق ہے تو چین جہاں انہوں نے کوبے صوبے اور وائرس کے حملے کے ایپی سینٹر ووہان شہر کو مکمل طور پر بند کر دیا ، جہاں اب زندگی اب آہستہ آہستہ واپس آرہی ہے اور اسی پالیسی کو اب دنیا بھر میں عمل میں لیا جا رہا ہے . اٹلی میں یہی ہوا جہاں لوگوں نے حکومت کی اپیل کو نذر انداز کر دیا آج اسکی صورتحال دیکھیں تو خوف تاری ہو جاتا ہے . انکے ہسپتالوں میں لاش رکھنے کی جگہ نہیں اور ہسپتالوں کا عملہ یہ کہ رہا ہے کہ اب تو ہم نے لاشیں گننا بھی بند کر دی ہیں .
دوسرے خطاب کے فوری بعد سندھ نے دو ہفتوں کے لئے لاک ڈاون کا کر دیا جسی پر ایک صحافی دوست نے تبصرہ فرمایا کہ انہیں ایسا نہیں کرنا تھا ذرا صبر کر لیتے۔ ارے بھائی کیوں بھلا کیا سندھ کے وزیر آعلی پر اپنے لوگوں کو تحفظ دینے کی ذمہ داری نہیں ؟ یہی ذمداری وزیر اعظم پر پوری قوم کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہے جو شاید وہ اب تک پوری نہیں کر سکے، اسکا انکی سیاست کو ناصرف نقصان پہنچا ہے بلکہ وہ اب لاک ڈاون کو جتنا لیٹ کریں گے اسکا انکی ساکھ اور فیصلہ سازی کی قوت پر بھی گہرے سوالات کھڑے ہو جائیں.
خان صاحب کے آج کے خطاب کے بعد مجھے انکا دھرنا یاد آگیا جو چار ماہ تک اسلام آباد کو جام کرکے رہا اس وقت انہیں وہ غریب دیہاڑی والے مزدور یاد رہے اور نہ ہی ملک کی معیشت کا خیال رہا۔ اپنے قوم سے خطاب میں انھوں نے دو ہزار پانچ کے زلزلے میں قوم کے کردار اتحاد اور عزم کی مثال دی۔ خان صاحب وہ صورتحال کچھ اور تھی۔ زلزلہ ایک بار آتا ہے یا کچھ دن اسکے آفٹر شاکس جیسا کہ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں ہوا اور پھر تمام اداروں اور سوشل ورکروں کو مل کر کام کا موقعہ مل جاتا ہے۔
یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے ہر شخص خوف میں مبتلا ہے . ہاتھ ملانا بھی ایسا لگتا ہے کہ کہیں وائرس کا حملہ تو گیا ؟ اور ہسپتالوں میں جو صورتحال ہے وہ اور خوفزدہ کرنے والی ہے۔ نہ تربیت یافتہ عملہ ، نہ ادویات اور نہ مشینری یہاں تک کہ ماسک اور وینٹیلیٹر بھی ناپید تو اس صورتحال میں کیا لاک ڈاون یا ابتدائی طور پر رات کا کرفیو بہتر آپشن نہیں ؟ جہاں تک لوگوں کی روزی روٹی کا تعلق ہے تو عرض ہے جان ہے تو جہاں ہے۔ کراچی جیسے بڑا شہر ماضی میں نوے کی دہائی میں بار بار طویل کرفیو کی زد میں رہا پھر ستتر میں بھٹو کے دور میں طویل کرفیو کسے یاد نہیں۔ اس وقت بھی نہ بھوک کئ وجہ سے نہ کوئی مرا اور نہ کھانے پینے کی اشیا کی لوٹ مار ہوئی۔
صورتحال کا تقاضہ ہے کہ سیاسی اختلافات کو کر وزیر اعظم عمران خان کو تمام سیاسی را ہنماؤں کو آل پارٹی کانفرنس کی دعوت دیں اور انفرادی فیصلوں کے بجائے مشترکہ اور موثر فیصلے کرنے ہونگے۔ ورنہ اٹلی سے زیادہ بری صورتحال کہیں سامنا نہ کرنا پر جائے، جس کا پاکستان جیسا ملک متحمل نہیں ہو سکتا .
.