پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی اتحادی حکومت جس کی سربراہی پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کر رہے ہیں۔ اسے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جن میں سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی کا ہے۔
پاکستان کی معیشت جو چار سال پہلے 5 اعشاریہ 8 فیصد شرح نمو کے حساب سے ترقی کر رہی اور اس کی جی ڈی پی کا حجم تقریبا 320 بلین سے زیادہ تھا۔ آج چار سال بعد 2022 میں شرح نمو کم ہو کر اس سال کے آخر تک چار فیصد توقع کی جا رہی ہے اور اس کا حجم 300 بلین سے بھی کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2023 میں 310 بلین ڈالر کے قریب ہوگا یعنی کہ پانچ سال بعد بھی اس 2018 والی پوزیشن سے کم ہوگا۔
ان تمام حالات کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص پالیسیاں ہیں جو پہلے دن سے ملک کی معیشت کی تباہی کا سبب بنی۔ نواز لیگ نے جب ملک تحریک انصاف کے حوالے کیا تو پاکستان ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ شرح نمو بہترین تھی۔ کرنسی پہلے چار سال دنیا کی مستحکم کرنسیوں میں شمار ہوتی تھی۔ آخری سال جوڈیشل ایکٹیوزم اور تحریک لبیک اور تحریک انصاف کے سرگرمیوں نے جو ملک کا نقصان کیا، اس کے نتیجے میں ڈالر کچھ بڑھا لیکن حالات بہتر رہے۔
نواز لیگ نے اپنے پانچ سالوں میں جہاں معیشت کو مضبوط کیا، وہیں دفاعی بجٹ میں بیاسی فیصد اضافہ کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی بجٹ ایک ٹریلین سے زیادہ ہوا۔ روزگار کے مواقع بڑھے، گیارہ ہزار بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوئی جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔
سی پیک کے ذریعے انویسمنٹ آئی۔ موٹر ویز اور میٹروز نے جہاں عام آدمی کو بہتر سفری سہولیات میسر کیں، وہیں کاروباری افراد کیلئے مارکیٹ تک رسائی کم وقت میں ممکن بنائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کا ٹیکس ریونیو 1900 ارب سے 4000 ارب پر پہنچ گیا لیکن اس رفتار کو پی ٹی آئی اپنے اقتدار کے پہلے کچھ ہفتوں میں ہی بریک لگا دی۔ جب انہوں نے ستمبر 2018 میں اپنے پہلے منی بجٹ میں ناصرف 700 ارب سے زائد کے اضافی ٹیکس لگائے بلکہ ترقیاتی بجٹ کو بھی کم کر دیا اور کاروباری افراد کو ٹیکس کی مد میں میسر سہولیات کو بھی ختم کر دیا، جس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں جاری ترقی کا پہیہ رک گیا۔ بے روزگاری بڑھنے لگی اور کاروباری افراد تذبذب کا شکار نظر آئے۔ جبکہ دوسری طرف کرپشن کی داستانیں عام ہونے لگیں۔ ادویات کی قیمیتں پانچ سو فیصد بڑھا دی گئیں اور ان میں پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما ملوث پائے گئے۔
چینی بحران پیدا ہوا۔ چینی بحران میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے اس وقت کے وزیر خزانہ کے علاوہ رزاق داؤد اور دوسرے لوگوں پر سبسڈی کے حوالے سے الزامات لگے اور چینی کی قیمت 52 روپے سے بڑھ کر ایک وقت میں 115 تک پہنچ گئی۔ پاکستان گندم ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں شامل تھا لیکن اس دور میں گندم کا سنگین بحران پیدا کیا گیا اور پاکستان آٹے کی قلت کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتیں آسمانوں کو چھونے لگیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ عام آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا۔ افراط زر ایک وقت میں ایکسپرٹ کے مطابق 18 فیصد تک پہنچ گیا اور شرح نمو کم ہو کر مائنس میں آ گئی۔ سب سے بڑا ظلم پی ٹی آئی حکومت کے دوران یہ ہوا کہ اپنی شارٹ ٹرم ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہاٹ منی کے ذریعے کیش فلو کو مینج کیا گیا۔ جس پر unrealistic سود کی شرح دی گئی اور جو کہ پاکستان کی ٹریژری پر ایک اضافی بوجھ پڑا۔ جبکہ پی ٹی آئی اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔ ان چار سالوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے نہ تو ریونیو بڑھانے کیلئے کو اقدامات اٹھائے اور نہ ہی کوئی ایسا ترقیاتی منصوبہ لگایا جس سے ملک میں اکنامک ایکٹویٹی بڑھتی۔
سی پیک جو کہ گیم چینجر جانا جاتا تھا اسے بند کر دیا۔ فارن پالیسی اتنی بری تھی کہ کشمیر اپنے ہاتھوں سے بھارت کے حولے کر دیا۔ اور اس پر قرارداد کیلئے مطلوبہ ممالک کی حمایت تک حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔ تمام دوست ممالک سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے۔ ایف اے ٹی ایف سے معاملات جوں کے توں رہے اور ان کے کنسرن ابھی تک وہیں ہیں۔ کیش فلو کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تمام انحصار یا تو قرضوں کے حصول پر رہا یا پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر۔
نتیجہ یہ نکلا کہ مہنگائی عروج پہ پہنچ گئی۔ پاکستان کے قرضے بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ سٹیٹ بینک کی فروری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ڈومیسٹک ڈیبٹ کا حجم 28 ٹریلین سے زیادہ ہے جبکہ ن لیگ کے دور میں یہ حجم 16.5 ٹریلین تھا۔ جبکہ فارن لون کا حجم 31 دسمبر تک 130.6 بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔
جس تیز رفتاری سے تحریک انصاف نے قرضوں میں اضافہ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود پاکستان کے فارن ایکسچیج ریزرو میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا۔ پاکستان کا جو قرضہ 2018 میں 29,879 بلین تھا، پی ٹی آئی کے پچھلے چار سالوں میں بڑھ کر 51, 724 بلین سے اوپر چلا گیا۔
اس کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت نے ملک کے ساتھ ظلم یہ کیا کہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لیا۔ ان شرائط میں یہ یقینی بنایا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت تمام سبسڈیز کو ختم کرے گی۔ کوئی نئی ایمنیسٹی نہیں دے گی۔ ٹیکس میں دی گئی تمام چھوٹ ختم کرے گی۔ پیٹرول کی لیوی میں بتدریج اضافہ کرے گی یہاں تک کہ یہ 30 روپے فی لیٹر تک پہنچ جائے۔ دوسرا سٹیٹ بینک کے قوانین میں تبدیلی ہوئی جہاں فری فلوٹ آف ڈالر اور پرائس کنٹرول کی پاور سٹیٹ بینک کو دے دی گئیں جو کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا ذمہ تھیں اور اس کا تعلق سٹیٹ بنک سے زیادہ انٹرنیشنل مارکیٹ سے ہوتا ہے۔ سٹیٹ بنک کو دے کر حکومت کا رول ختم کردیا گیا۔
ان تمام حالات میں روپے کی ویلیو پچھلے چار سالوں میں 60 فیصد سے زیادہ گرا دی گئی۔ سرکولر ڈیٹ 2500 بلین پر پہنچا دیا گیا، یعنی 2018 سے اب تک اس میں 1,328 بلین کا اضافہ ہوا۔ گیس سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ جو پچھلی حکومت میں صفر تھا اب 1500 بلین کو عبور کر چکا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 بلین ڈالر کو عبور کر چکا ہے۔
سرکاری اداروں کے نقصاں کا تختمیہ بھی قریب کوئی 500 ارب سے زیادہ ہے۔ پرائیوٹائزیشن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی نہ ہی کوئی ایسے اقدامات اٹھائے گئے جس سے حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا۔ ٹیکس کے اہداف بھی منی بجٹ میں 350 ارب سے زائد نئے ٹیکس لگا کر کئے گئے۔ ایسے حالات میں جب عمران خان نے اپنی حکومت جاتی دیکھی تو اپنے سیاسی فائدے کیلئے آئی ایم ایف سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور پیٹرول کی قیمت جو 200 روپے سے اوپر ہونی چاہیے تھی، اسے جون تک 150 روپے پر فریز کر دیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود کی کوئی نئی ایمنسٹی نہیں دی گئی۔ اپنے دوستوں کو نوازنے کیلئے وہ معاہدہ بھی توڑ دیا اور جاتے ہوئے ایمنیسٹی سکیم جاری کردی۔ ان تمام اقدامات نے جہاں پاکستان کی معاہدوں کے حوالے سے شہرت کو نقصان پہنچایا، وہیں آنیوالی حکومت کیلئے کسی بھی ادارے سے فنانس کا حصول بھی مشکل بنا دیا جو کہ ملک کے ساتھ غداری کے زمرے میں آتا ہے۔
ایسے حالات میں نئی اتحادی حکومت افراز زر کو کنٹرول کرنے اور عوام کو سہولیات دینے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ مشکلات کے باوجود پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا تاکہ عوام پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اٹھارہ مئی سے آئی ایم ایف کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کو پیٹرول اور بجلی کی سبسڈی پر راضی کر لیا جائے۔ گورنمنٹ دوسرے پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جن میں ٹیکس ریفارمز سے ٹیکس نیٹ کو 12 ٹریلینز تک لے جانا، پرائیویٹائزیزیشن، لیکجز کو کنٹرول کرنا تاکہ ٹریژری پر بوجھ کم کیا جا سکے اور اس کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کو ریلیف دینا تاکہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکے۔ ان تمام اقدامات کیلئے کچھ وقت درکار ہے لیکن یہ تمام اقدامات پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔ جن کے نتائج آپ آنے والے کچھ ہفتوں میں دیکھیں گے۔ نواز شریف، شہباز شریف، ان کی معاشی ٹیم اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل پر بھروسہ رکھیں، انشاء اللہ حالات جلد بہتر ہوں گے۔