Get Alerts

حکومت مریم نواز کا فون ٹیپ کر رہی ہے؟

حکومت مریم نواز کا فون ٹیپ کر رہی ہے؟
موجودہ حکومت کے الیکشن سے پہلے کے دعووں اور وعدوں کو یاد دلاتے تو اب خود بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنی زبان میں ہی اثر کھو گیا ہو۔ لیکن کیا کیجیے کہ یہ باتیں، دعوے اور وعدے تھے ہی اتنے خوش کن کہ انہیں بھلایا بھی نہیں جا سکتا۔ وہ بھی کیا وقت تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کہا کرتے تھے کہ پاکستان تحریکِ انصاف تو سیاسی جماعت ہی میڈیا کے بل پر بنی ہے۔ اگر میڈیا نہ ہوتا تو ہمارے پاس تو اتنا پیسہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی بڑے الیکٹیبلز تھے جو ہماری پارٹی کو کھڑا کرتے۔ لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اور عمران خان اقتدار میں آ گئے۔ وہ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی کہ میڈیا میں ان کو کوریج کس کے کہنے پر ملتی تھی۔ میڈیا ہوتا کون ہے خود سے عمران خان کو کچھ بھی بنانے والا۔ ان کے روزانہ کی بنیاد پر انٹرویوز کے لئے ریٹنگز کے بہانے کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، یہ اب سب ہی جانتے ہیں۔ اسے دہرانے کا فائدہ نہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ میڈیا پر جتنی قدغنیں عمران خان کے دور میں لگائی گئیں، ماضی قریب کی کسی حکومت میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔

وہ حامد میر جو بڑے چھوٹے عمران خان کا انٹرویو کر لیا کرتے تھے، جب خان صاحب کوئی بڑی بیوقوفی کر جاتے، حامد میر فوراً ان کا انٹرویو کر کے ان کے لئے معاملات کو سدھارنے کو اپنا پلیٹ فارم فراہم کر دیتے، آج کل راندہ درگاہ ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے کالم میں بھی وہ وقت یاد کیا جب جنرل مشرف کے دور میں ان کے پروگرام پر پابندی لگائی گئی تو عمران خان سڑک پر ان کے ساتھ پروگرام کرتے رہے اور آزادی اظہار رائے کو میڈیا کا حق قرار دیتے رہے۔ حامد میر نے آگے جا کر یہ بھی لکھا کہ جنرل مشرف کے دور سے زیادہ مرتبہ ان پر عمران خان کے دور میں پابندی لگائی جا چکی ہے۔ دیگر صحافیوں کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے۔ رؤف کلاسرا بھی ان کے بہت بڑے مداح تھے، پھر انہوں نے بھی بیروزگاری کا مزا انہی کے دورِ اقتدار میں چکھا جب کوئی ناپسندیدہ بات ان کی پروگرام میں کر دی گئی تھی۔

اب تازہ ترین ہدف عاصمہ شیرازی ہیں۔ یہ کوئی نیا ہدف نہیں۔ 2018 ہی سے تحریکِ انصاف کو عاصمہ شیرازی سے ایک خاص قسم کی تکلیف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عاصمہ نے اس وقت نواز شریف کا ایک انٹرویو کیا تھا جو کہ ان کے اس وقت کے چینل 92 نیوز نے چلنے نہیں دیا اور اس کے بارے میں انہوں نے نہ صرف ٹوئیٹ کیا بلکہ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف نے اس انٹرویو کی بابت ان سے سوال کیا تو انہوں نے وہاں بھی بتایا کہ وہ چینل کی جانب سے نہیں چلایا گیا۔

اب اسی پریس کانفرنس کا ایک ٹکڑا لے کر حکومتی جماعت کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ان کو مؤدبانہ انداز میں سابق وزیر اعظم سے بات کرنے پر معتوب کیا جا رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس وقت کس حد تک زمینی حقائق سے دور ہے۔ پہلے پورا دن عاصمہ شیرازی کے خلاف ٹوئیٹس کرنے کے بعد اگلے روز وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ شہباز گل نے ایک پریس کانفرنس بھی کی جس میں عاصمہ کے خلاف مزید الزامات عائد کیے۔ تاہم، اس پریس کانفرنس میں وہ ایک بہت بڑی غلطی کر گئے اور اس غلطی کی سنگینی کا اندازہ ابتداً بہت سے لوگوں کو بھی نہیں ہوا لیکن ان کی پریس کانفرنس میں یہ نکتہ حد سے زیادہ خوفناک تھا۔ شہباز گل نے کہا کہ ایک خاتون صحافی کی فون پر مریم نواز سے 53 دفعہ تک بات ہوئی ہے۔

اب ظاہر ہے کہ ایک دن میں 53 کالز تو ہو نہیں سکتیں۔ 53 پیغامات کسی میسجنگ ایپ کے ذریعے ہی بھیجے گئے ہوں گے اور یہ کوئی حیران کن حد تک بڑا ہندسہ بھی نہیں ہے۔ لیکن شہباز گل کا یہ اعلان کہ ایک صحافی کی مریم نواز سے 53 دفعہ بات ہوئی، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ شہباز گل کے پاس یہ معلومات کہیں نہ کہیں سے آئی ہیں اور اس کے دو ہی ذرائع ہو سکتے ہیں۔ ایک ذریعہ ہے مریم نواز کا فون اور دوسرا ذریعہ اس خاتون صحافی کا فون ہو سکتا ہے جن کی وہ بات کر رہے ہیں۔ یعنی صحافی کا فون ٹیپ کیا جا رہا تھا؟ یا پھر مریم نواز کا فون ٹیپ کیا جا رہا تھا؟ یاد رہے کہ نہ صرف یہ غیر قانونی ہے بلکہ میسجز میں لوگ بہت سے نجی اور حساس نوعیت کے معاملات پر بھی بات چیت کرتے ہیں۔

اگر حکومت کی صحافیوں اور اپوزیشن کی ایک اہم ترین رہنما کے موبائل کے ڈیٹا تک رسائی موجود ہے تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں کس طرح دخل اندازی کر رہی ہے۔ اس حکومت پر چیئرمین نیب کی ریکارڈڈ فون کالز کے ذریعے انہیں بلیک میل کرنے کا الزام بھی موجود ہے۔ اب اپوزیشن رہنما اور ایک صحافی کے درمیان ہوئی بات چیت کا ریکارڈ شہباز گل کے پاس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ان سے متعلق بھی معلومات اکٹھی کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ دونوں پارٹیاں یعنی اینکر اور سیاسی رہنما جن کے بارے میں شہباز گل بات کر رہے ہیں، خواتین ہیں۔ یعنی خواتین کے فون ریکارڈز اور شاید فون ٹیپنگ یہاں کارفرما ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اب تک سوائے PFUJ یا چند ایک آزاد منش صحافیوں کے کسی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی۔ خود اپوزیشن رہنماؤں نے بھی نہیں۔

بار دگر عرض ہے کہ اس انکشاف کو سنجیدگی سے لیے جانے کی ضرورت ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کو چاہیے کہ فوری طور پر اس کا نوٹس لے اور وکلا کو بھی چاہیے کہ عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں۔ یہ انتہائی خوفناک معاملہ ہے۔ ایک حکومت جس میں پہلے ہی فسطائیت کے جراثیم کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں اگر اس کے ہاتھ میں یہ غیر قانونی طاقت بھی موجود ہے تو اس کے ہاتھ روکنا ملک کی عدالتوں کا فرض ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.