Get Alerts

مفاہمت کی واحد آپشن شہباز شریف

مفاہمت کی واحد آپشن شہباز شریف
پاکستان کے سیاسی حالات اس وقت اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے تمام ادارے مل کر کام کریں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آمریت کے ادوار میں جب سیاسی جماعتیں اور آمریت کے درمیان ٹکرائو ہوتا ہے تب بھی ملک کی ترقی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جمہوری ادوار میں جب سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کے درمیان ٹکرائو شروع ہوجاتا ہے تب بھی ملک کی ترقی نہیں ہوتی۔ عدم استحکام کسی بھی شکل میں ہو اس کا نقصان پاکستان کو ہوتا ہے۔ اس لئے ملک کو ایک ایسی حکومت کی تلاش ہے جس میں سیاسی ہم آہنگی کیساتھ مل کر ملک کی ترقی کیلئے کام کیا جا سکے۔ تاہم ابھی تک پاکستان کو ایسی حکومت نہیں مل سکی۔

تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان کی حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر چل رہے ہیں۔ وہ بار بار سیم پیج کے دعویدار بنے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ان تین سالوں میں عمران خان حکومت کو اس قدر سپورٹ کیا کہ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ تاہم پھر بھی پاکستان کو وہ ترقی نہیں مل سکی جس کے بارے میں بات کی جاتی تھی۔ کیا یہ فلسفہ فیل ہو گیا ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت مل کر کام کریں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ کیا مل کر کام کرنا بھی ترقی کا ضامن نہیں ہے۔ اگر نہیں ہے تو پھر کیا کریں۔ ہم نے تو تجربات کرکے دیکھ لیا ہے۔ محاذ آرائی کرکے بھی دیکھ لیا ہے۔ مارشل لا ادوار بھی دیکھ لئے ہیں اور اب اکھٹے چل کر بھی دیکھ لیا ہے۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا تحریک انصاف اور عوام کی ناکامی مل کر چلنے کے فلسفہ کی ناکامی ہے۔ اگر حکومت ڈیلیور نہیں کر سکی تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اداروں کیساتھ مل کر چلنے کا فلسفہ اور تجربہ ہی فیل ہو گیا ہے۔ نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میرا موقف ہے کہ مل کر چلنے کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ مل کر چلنے اور اداروں کے تعاون کے ثمرات تب ہی سامنے آئیں گے جب سول حکومت اہل ہوگی۔ اس میں عوام کی خدمت کرنے کی اہلیت ہوگی۔ اس کے پاس حکومت کرنے کا کوئی روڈ میپ موجود ہوگا۔ تب ہی مل کر چلنے کے ثمرات سامنے آئیں گے۔ عمران خان کے پاس نہ تو کوئی روڈ میپ تھا اور نہ ہی ان کے پاس ملک چلانے کیلئے کوئی قابل ٹیم تھی۔ اس لئے وہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعاون ملنے کے باوجود ڈیلیور ہی نہ کر سکے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام تر تعاون کے باوجود موجودہ حکومت نے بھی محاذ آرائی کی سیاست شروع کر دی ہے۔ حکومتی ناکامیوں نے حکومتی قیادت کو ازخود محاذ آرائی پر مجبور کر دیا ہے۔ وہ اداروں سے ٹکرائو کی جانب جانا شروع ہو گئی ہے۔ اب وہ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری اداروں پر ڈالنے کے چکر میں لگ رہی ہے۔ وہ ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش میں نظر آ رہی ہے کہ میں تو بہت کام کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے کام ہی نہیں کرنے دیا گیا۔ اس لئے حکومت اب نان ایشوز کو ایشو بنا رہی ہے۔ حکومت نے جس قسم کی محاذ آرائی شروع کی ہے، اس کے نہ تو ماضی میں مثبت اثرات سامنے آئے ہیں اور نہ ہی اب آنے کی کوئی امید ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر ملک کو مل کر آگے چلانا ہے تو پھر ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں۔ شاید یہ بھی ثابت ہوا کہ زبردستی اگر کسی کو اقتدار میں لایا جائے گا تب بھی ڈیلیور نہیں کر سکے گا۔ اس لئے آج پاکستان کو ایسے آپشن کی ضرورت ہے جو ایک طرف مل کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور دوسری طرف ڈیلیور بھی کر سکتا ہو۔ اگر حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہے تو اس میں مقتدر حلقوں کا کیا قصور ہے۔ اگر حکومت نے ملک کی تمام سیاسی قوتوں سے محاذ آرائی شروع کی ہوئی ہے تو اس میں بھی اداروں کا کیا قصور ہے۔ اگر احتساب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے تو یہ بھی حکومتی حکمت عملی ہے۔ اس لئے حکومت کی ناکامیاں الگ بات ہے اور مل کر چلنے کے فوائد الگ بات ہیں۔

ویسے تو اس وقت پیپلز پارٹی بھی اداروں کیساتھ مل کر چلنے کا پرچم بلند کرکے سیاست کر رہی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی اور بالخصوص بلاول کی بھی ڈیلیوری کا مسئلہ ہے۔ ان کی ماضی اور حال کی حکومتوں کی بھی ڈیلیوری ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے انداز حکمرانی میں بھی ڈیلیوری نظر نہیں آتی ہے۔ شاید آج پاکستان کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے اس میں بلاول بھی کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکیں گے۔ ان کی سیاسی حکمت عملی شاید عمران خان سے بہتر ہوگی لیکن گورننس اور دیگر جو چینلجز آج درپیش ہیں ان میں پیپلز پارٹی کا ٹریک ریکارڈ کوئی اچھا نہیں ہے۔ سندھ اور کراچی کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ پھر بھی پیپلز پارٹی کی مفاہمت عارضی ہوتی ہے وہ اس حوالہ سے ماضی قریب میں کئی بار یوٹرن لے چکے ہیں۔ اداروں کیساتھ چلنے کی پالیسی پیپلز پارٹی سیاسی ضرورت کے تحت بناتی ہے اور ضرورت کے تحت ختم کر دیتی ہے۔

پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کس کا فلسفہ مفاہمت کسی سیاسی ضرورت کا مرہون منت نہ ہو۔ اس کا مل کر چلنے پر ایک یقین کامل ہو، لیکن ساتھ ساتھ گورننس اور ڈیلیوری بھی دے سکتا ہو۔ تب ہی پاکستان میں اداروں کیساتھ مل کر چلنے کے حقیقی فوائد سامنے آ سکتے ہیں۔ اداروں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ ایسی قیادت سامنے نہیں لائیں گے تو عوام میں یہ رائے مضبوط ہو جائے گی کہ مل کر چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ایسے میں اگر شہباز شریف کو دیکھا جائے تو انہوں نے انتہائی نامناسب حالات میں بھی مفاہمت اور اداروں کے ساتھ تعاون کی بات کی ہے۔ انہوں نے 2018ء میں جب کسی کی سوچ میں بھی نہیں تھا پاکستان کیلئے چارٹر آف اکانومی کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنی مفاہمت کے نظریہ کی وجہ سے شہباز شریف موجودہ دور میں دو دفعہ جیل کاٹ چکے ہیں۔ سارے ریفرنس بھی اسی وجہ سے ہیں۔ ورنہ مزاحمت والوں کو تو عمران خان نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ وہ مفاہمت کو ہی اپنا دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ مفاہمت ہی ان کی جگہ لے سکتی ہے۔ اس لئے انہوں نے شہباز شریف کو دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش کی تاکہ وہ مفاہمت سے توبہ کرکے مزاحمت کیساتھ مل کر کھڑے ہو جائیں لیکن شہباز شریف نے جیلیں کاٹ لیں۔ سارے خاندان پر مقدمات بنوا لئے لیکن مفاہمت نہیں چھوڑی۔ انہوں نے نہ تو مفاہمت چھوڑی اور نہ ہی اپنی پارٹی کو ہی خیرباد کہا کیونکہ اگر وہ پارٹی بھی چھوڑ دیتے تو عمران خان کا مقصد پورا ہو جاتا۔ اسی لئے جتنا شور (ن) میں سے (ش) نکلنے کا عمران خان کی ٹیم نے مچایا، اس کے پیچھے بھی ایک حکمت عملی تھی کہ شہباز شریف کو پارٹی سے نکلوا دیا جائے۔ ان کا پلان تھا کہ اس قدر شور مچائو کہ سب تسلیم کر لیں۔ لیکن شہباز شریف پر یہ حملہ اور تدبیر ناکام ہوگئی بلکہ وہ پارٹی میں مزید مقبول ہو گئے۔

آج پارٹی ان کیساتھ کھڑی ہے اور مفاہمت کا فلسفہ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ اس لئے اگر آج انتخابات ہو جائیں مسلم لیگ (ن) کی جیت کے امکانات پیپلز پارٹی سے زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں شہباز شریف ہی واحد آپشن نظر آ رہے ہیں۔

شہباز شریف کا ڈیلیوری کے علاوہ گورننس کا ریکارڈ بھی بہتر ہے۔ ان کو حکومت کی رٹ قائم کرنا بھی آتی ہے۔ اس لئے اگر شہباز شریف اور ملک کے مقتدر حلقے مل کر ایک اننگ کھیلیں اور شہباز شریف کو عمران خان جیسا تعاون مل جائے تو یقیناً وہ موجودہ حکومت سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ تعاون اور مفاہمت کے وہ ثمرات بھی سامنے آ سکتے ہیں جن کے بارے میں بات کی جاتی تھی، اس لئے اب مفاہمت کی واحد آپشن شہباز شریف ہی ہیں۔