سپریم کورٹ نے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ہم اگر ابھی واپس آئے تو شارٹ آرڈرجاری کریں گے۔ مشاورت کے بعد بتائیں گے فیصلہ آج سنانا ہے یا کسی اور دن کا انتخاب ہوگا۔ عدالت نے 9 متفرق درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت کا آغاز کے پر جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنا چاہوں گا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آخری سماعت میں اٹارنی جنرل روسٹرم پر تھے اس لیے پہلے اٹارنی جنرل کو دلائل مکمل کرنے دیں۔ وکیل سابق چیف جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ میں 3 اگست کا حکم نامہ عدالت کے سامنے پڑھنا چاہتا ہوں۔ جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ہم نے وہ آرڈر پڑھا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ حتمی دلائل دیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ عدالتی کارروائی کو آگے کیسے چلانا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت میں یقین دہانی کروانے کے باوجود فوجی عدالتوں نے سویلین کا ٹرائل شروع کر دیا ہے۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں معلوم ہے۔ ہم پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ سویلینز آرمی ایکٹ کے دائرے میں کیسے آتے ہیں؟جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 8کیا کہتا ہے اٹارنی جنرل صاحب؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 8کے مطابق بنیادی حقوق کے برخلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی۔جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آرمی ایکٹ افواج میں نظم و ضبط کے قیام کیلئے ہے۔افواج کے نظم و ضبط کیلئے موجود قانون کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ افواج کا نظم و ضبط اندرونی جبکہ فرائض کے انجام میں رکاوٹ ڈالنا بیرونی معاملہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہو سکتا ہے جو اس کے زمرے میں آئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جن قوانین کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کیا بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے۔ آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہر قیمت پر یقینی بناتا ہے۔عام شہریوں پر آرمی ڈسپلن ، بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہو سکتے ہیں؟عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوگا۔ کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہئے بنیادی حقوق معطل کر دیئے جائیں۔
واضح رہے کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہوگیا ہے اور اس متعلق وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو متفرق درخواست میں آگاہ کر دیا ہے۔
وفاقی حکومت نے متفرق درخواست میں بتایا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے۔ زیر حراست افراد کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرائل کیا جا رہا ہے اور جو فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں قصوروار ثابت نہ ہوا وہ بری ہوجائے گا۔
متفرق درخواست کے کے مطابق فوجی عدالتوں میں ہونے والا ٹرائل سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوگا۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے بعد جو قصوروار ثابت ہوگا ان کو معمولی سزائیں ہوں گی جبکہ 9 اور 10مئی کے واقعات میں ملوث جو افراد جرم کے مطابق قید کاٹ چکے انہیں رہا کر دیا جائے گا۔
فوجی ٹرائل کے بعد سزا یافتہ قانون کے مطابق سزاوں کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کر سکیں گے۔ سپریم کورٹ کے 3 اگست کے حکمنامے کی روشنی میں عدالت کو ٹرائلز کے آغازسے مطلع کیا جا رہا ہے۔
فوجی تحویل میں لیے گئے افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔گرفتار افراد جی ایچ کیو راولپنڈی اور کور کمانڈر ہاوس لاہور پر حملے میں ملوث ہیں۔ گرفتار افراد پی اے ایف بیس میانوالی اور آئی ایس آئی سول لائنز فیصل آباد پر حملے میں ملوث ہیں۔ گرفتار افراد حمزہ کیمپ، بنوں کیمپ اور گوجرانوالہ کیمپ پر حملے میں ملوث ہونے پر تحویل میں ہیں۔
اس سے قبل، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی گزشتہ سماعت 3 اگست کو ہوئی تھی۔