قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعہ کو مصروف دن گزارا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اہلیہ کے علاج کے لیے امریکا روانگی سے قبل دو گھنٹے سے زائد طویل ملاقات اور اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان سے ملاقات بھی شامل تھیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ ملاقاتیں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے دو رکنی بینچ کا 20 اگست کا فیصلہ واپس لینے کے ایک روز بعد ہوئیں، دو رکنی بینچ کا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا تھا اور درخواست کے ذریعے صحافیوں کی ہراساں کرنے کے الزامات پر جواب دینے کے لیے متعدد سرکاری عہدیداران کو طلب کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل سے ملاقات کے دوران عدلیہ میں کشیدگی بڑھنے کے خیال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور عدلیہ کی ساکھ بہتر بنانے اور اس پر شہریوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے حوالے سے خیالات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
جمعہ کو قائم مقام چیف جسٹس نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس کی سماعت 30 اگست بروز پیر کے لیے مقرر کرنے کا بھی حکم دیا تھا جس میں درخواست گزاروں کی شکایات سنی جائیں گی۔
26 اگست کے متفقہ مختصر حکم میں پانچ رکنی بینچ نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کا کیس مزید احکامات کے لیے چیف جسٹس کے دفتر بھیجا جائے۔ اس کے نتیجے میں کیس چیف جسٹس کے دفتر بھیجا گیا اور پھر اس پر سماعت کے لیے تین رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ پیر کو جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ کیس پر سماعت کرے گا۔
کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس کے اس نوٹ کے ساتھ مقرر ہوئی ہے کہ صحافیوں نے عوام کو حالات سے باخبر رکھنے اور معلومات پر مبنی رائے قائم کرنے کے لیے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ملاقات قائم مقام چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوئی جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی صحت سے متعلق دریافت کیا اور ان کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔
سپریم کورٹ آفس نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے ایک پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ان کی اہلیہ کو بڑھے ہوئے تھائرائیڈ کو نکالنے کے لیے گلے کی سرجری کا مشورہ دیا گیا ہے۔
پیغام میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ علاج معالجے اور سفر کے تمام اخراجات خود برداشت کریں گے۔
ایک سینیئر وکیل کا کہنا تھا کہ قائم مقام چیف جسٹس اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ملاقات اچھا شگون تھا جس سے سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان خلیج بڑھنے کے تاثر کو زائل کرنے میں مدد ملے گی۔
قانونی ماہرین کو امید ہے کہ سپریم کورٹ 13 ستمبر سے جب نیا عدالتی سال شروع کرے گی تو عام نوعیت کے زیر التوا مقدمات کو زیادہ اہمیت دی جائے گی۔
سپریم کورٹ میں پہلے ہی زیر التوا مقدمات کی تعداد 52 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔