سینیئر پاکستانی صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کو ایک برس بیت گیا لیکن ملزمان اب تک انصاف کے کٹہرے میں نہ لائے جاسکے۔
کینیا میں قتل ہونے والے سینئر صحافی ارشد شریف کی پہلی برسی کے موقع پر ان کے اہل خانہ نے بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ قتل کے ایک سال بعد بھی ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جاسکا۔
تحقیقاتی صحافی اور ٹیلی ویژن اینکر ارشد شریف کو کینیا میں مبینہ طور پر 'پولیس فائرنگ' میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ارشد شریف پاکستان میں قانونی چارہ جوئی اور دھمکیوں سے بچنے کے لیے کینیا فرار ہو گئے تھے۔
ابتدائی طور پر کینیا کی پولیس کا بیان سامنے آیا جس کے مطابق پولیس نے ارشد شریف کو ’غلط شناخت‘ پر گولی ماری۔ پولیس کو شبہ تھا کہ ارشد شریف مجرم ہیں جو افریقی ملک میں سرگرم عمل ہیں۔
تاہم، شریف خاندان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ارشد شریف کے قتل میں پاکستان سے ہی کچھ لوگ ملوث ہیں۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے قتل کے ایک سال بعد بھی مجرموں کو گرفتار کرنا باقی ہے، چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا کینیا میں۔ جبکہ قانونی معاملے میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔
صحافیوں کے حقوق کی تنظیم فریڈم نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے ان کی دوسری اہلیہ جویریہ صدیق نے کہا کہ میں بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ ارشد شریف کے لیے انصاف دلانے میں میری مدد کریں۔
انہوں نے میڈیا کے حقوق کے عالمی اداروں پر زور دیا کہ وہ ان کے شوہر کے قتل کی تحقیقات کریں کیونکہ ان اداروں نے دیگر صحافیوں کے مقدمات کی تحقیقات بھی کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صحافت جرم نہیں ہے۔ صحافت کرنے والوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے اور میڈیا کے حقوق کے بین الاقوامی ادارے صحافیوں کا دفاع کرنے کے پابند ہیں۔
گزشتہ ہفتے مقتول صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے بتایا تھا کہ کینیا کی ہائی کورٹ میں عدالت میں پولیس کے خلاف درخواست دائر کرنے جا رہی ہیں تاہم آج ان کے وکیل نے تصدیق کی کہ کینیا کی ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں موجود جویریہ صدیق کے وکیل اوشیل ڈوڈلے نے بتایا کہ مقدمہ دائر کرلیا گیا ہے اور وہ کیس نمبر اور عدالت سے مزید ہدایات کا انتظار کر رہے ہیں۔
جویریہ صدیق نے کہا کہ میں ایک سال سے انصاف کے لیے جدوجہد کر رہی ہوں۔ کینیا پولیس نے کہا کہ انہوں نے میرے خاوند کو قتل کیا لیکن کبھی بھی معافی نہیں مانگی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کینیا کے صدر اور وزیر خارجہ کو بھی خط لکھا لیکن انہوں نے بھی کبھی معذرت تک نہیں کی۔
واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو نامور پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد کینیا پولیس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
ارشد شریف کے قتل میں ملوث کینیا پولیس کے پانچوں اہلکار بحال ہونے کے بعد ڈیوٹی پر واپس آگئے۔
ذرائع کے مطابق پانچوں پولیس اہلکاروں کو انکوائری میں بےگناہ قرار دے دیا گیا جبکہ 2 اہلکاروں کو سینیئر رینک پر ترقی بھی دے دی گئی۔
پاکستانی سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف کے قتل پر ازخود نوٹس بھی لیا تھا تاہم کئی سماعتوں کے باوجود کیس کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا۔